عزادارو.. آؤ اور مصائبِ جواد (ع) کے اشکوں سے اپنی آنکھوں کو غسل دو..

عزادارو.. آؤ اور مصائبِ جواد (ع) کے اشکوں سے اپنی آنکھوں کو غسل دو..

بغداد کی وہ رات عجیب سی خاموش تھی.. ستارے جیسے کسی سوگ میں منجمد ہو گئے تھے اور فضا میں ایک ایسا سناٹا تھا جو دل پر خاردار نکلیل بن کر چُبھتا تھا..

اسی رات میں ایک گھر کا حجرہ بھی تھا جہاں ظلم اپنے تمام تر وحشی پن کے ساتھ موجود تھا. اسی حجرے کے دروازے کے پیچھے، وہی نوجوان امام تھا جو علم کا سمندر، حلم کی چٹان، سخاوت کا آسمان تھا یعنی میرا مظلوم آقا جواد علیہ السلام، جو اب زہر کی شدت سے تڑپ رہا تھا..

نہ کوئی در کھولنے والا، نہ کوئی غلام، نہ ہی عزیز و رشتے دار، بس اک مظلوم کی سسکیاں تھیں، جو سنائی دیتی تھیں.. آہ… میرا جگر…

جسمِ اطہر پیچ و تاب میں مبتلا تھا. زہر رگوں میں بجلی بن کے دوڑتا تھا، لب خشکی سے چٹخ چکے تھے، زبان تالو سے چمٹ گئی تھی. پر کسی نے پانی کا ایک قطرہ تک نہ دیا. اور ام الفضل؟ بیوی ہوتے ہوئے بھی، جیسے کسی اور قبیلے سے تھی.. کنیزوں کو بلایا، رقص و سرور کا حکم دیا: خوشی مناؤ، قہقہے لگاؤ… تاکہ کوئی جواد (ع) کی سسکیاں نہ سن پائے! وہ پیاسے تھے اور باہر جشن تھا.

عزادارو.. ایک کنیز کا دل پگھلا، وہ پانی لے کر دوڑی لیکن ام الفضل نے برتن چھین لیا. اور کہا: نہیں سن رہی؟ وہ کہتا ہے میرا جگر جل رہا ہے! اور وہ برتن زمین پر دے مارا.

پانی امام کی آنکھوں کے سامنے بہتا رہا.. امام نے تڑپتے ہوئے اُس بہتے پانی کو بس اک لمحے دیکھا ہوگا… جیسے زندگی وہیں رک گئی ہو اور کہا ہوگا.. آہ حسین (ع) مظلوم

پھر وہ وقت آیا، جب امامِ جواد (ع) کی سانسیں ہچکولے لینے لگیں.. عجیب غربت کا عالم تھا.. زہر، تنہائی، پیاس اور بیوی کی بے وفائی نے ایک ایسا درد گھولا، جس کی کوئی مثال نہ تھی. نہ کوئی آغوش، نہ کوئی اشک، نہ کوئی بھائی.. بس ایک آخری کراہ… اور پھر خاموشی…

وہ نور، جو دلوں کو جِلا بخشتا تھا، رخصت ہو گیا… پیاسا، تنہا، مظلوم

لیکن عزادارو تمہارے امام پر ظلم کا باب یہیں بند نہ ہوا، دفن کی اجازت نہ دی گئی حکم تھا: لاش کو چھت پر ڈال دو، دھوپ میں!

تین دن، سورج کی تپش میں بدن تپتا رہا. نہ کفن، نہ گہوارہ ۔ بس پرندے آتے، اپنے پروں سے سایہ کرتے، جیسے خود پروردگار نے اُنہیں محافظ بنا دیا ہو. واغربتاہ

نہ کوئی بھائی، نہ بہن … بس ایک تنہا خستہ جسم اور گرد و پیش میں ہو کا عالم. وہ جسم جس پر آسمان نوحہ گر، زمین ساکت تھی آج بے کفن، دھوپ میں تپتا رہا اور دنیا؟ یا تو بے خبر تھی… یا بے حس۔

یہ وہ شہادت تھی، جو کربلا کی بازگشت تھی… وہی پیاس، وہی تنہائی، وہی جگر سوز زخم بس انداز نیا تھا..

وامصیبتاہ واغربتاہ.. زبانِ حال بھی قاصر ہے مولا

مر جائے #ابوعبداللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *