السلام علیکم مومنین و مومنات ۔۔
کافی عرصے بعد تحریر لکھنے بیٹھا ہوں کیونکہ جب سے مومنین کے سوالات بذریعہ واٹس ایپ آنے لگے ہیں تو دامن وقت میں گنجائش ہی نہیں رہتی کہ کسی اور عنوان پر منظم تحریر لکھ کر آپ کی خدمت کر سکوں ۔۔ اب یہ آپ گلہ سمجھ لیں یا میری معذرت خواہی ۔۔
خیر ۔۔ آج قلم کو حرکت دینا اس لئے بھی ناگزیر ہو گیا کیونکہ جب سے سوشل میڈیا متحرک ہوا ہے تب سے شیعوں کی جانب سے بہترین انداز میں مکتب اہل بیت کا دفاع جاری ہے اور تمام نامراد امتی بری طرح سے بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔ میں نے ایام عزا اور پھر ایام فاطمیہ میں یہ بات نوٹس کی کہ دشمنان اہل بیتؑ کے پاس جب کچھ نہیں بچتا تو وہ اپنی باتوں کو توحید کی جانب موڑ کر ہم شیعوں پر حملہ کرتے ہیں اور کیونکہ اس پر اردو زبان میں اتنا مناظرانہ کام نہیں ہوا کہ عام عوام توحید کو لے کر ان خبیث صفت افراد کو خود ان کی ہی کتابوں سے آئینہ دکھا سکیں تو سوچا اس پر لکھ کر اپنے مومنین کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ جب بھی دشمن توحید کی اوڑ لے کر بھاگنے کی کوشش کرے تو ان کے سامنے یہ تحریر پیش کر کے جواب طلب کیا جا سکے کہ تمہاری لنگڑی لولی توحید کا یہ حال ہے اور تم ہم شیعوں پر کفر و شرک کے فتوے ٹھوک کر خود کو بہت بڑا توحیدی ظاہر کرتے ہو ۔۔ اب جواب دو ان سب کا ۔۔
قطعاً کوئی لمبی چوڑی تمہید نہیں باندھوں گا ۔۔ بس ان نام نہاد مسلمانوں اور بالخصوص خود کو علمی کتابی ظاہر کر کے اور یہ نعرہ لگاتے کہ ۔۔
مرنے سے پہلے اے مسلماں کر لے اس پر غور
بابوں کا خدا اور ہے کتابوں کا خدا اور ۔۔
تو اب ان بیچارو کو کتابوں کا خدا خود ان کی اپنی کتابوں سے دکھاتے ہیں تاکہ یہ افراد ہم شیعوں کو پہلے اپنا مسلمان ہونا علمی کتابی انداز میں ثابت کریں کہ وہ ایک جسم کی پوجا نہیں کرتے اور جو ان کی کتابوں میں درج ہے جیسا کہ ۔۔۔
معاذاللہ خدا حقیقی چہرہ، منہ اور زبان رکھتا ہے اور وہ حقیقت میں ہنستا ہے، افسردہ اور تھک جاتا ہے۔ وہ مکر وچالاکی سے متصف ہوتا ہے۔ وہ دایاں اور بایاں ہاتھ رکھتا ہے اور ایک اور گروپ کے نزدیک فقط بایاں ہاتھ رکھتا ہے۔
اور خدائے بزرگ و برتر کی توہین با عنوانِ اوصاف اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ اس کی ایک ہی طرف ہے اور اس کی بہت ساری آنکھیں ہیں اور بعض لوگوں کے نزدیک اس کی صرف ایک ہی آنکھ ہے۔
وہ چلتا ہے، وہ آتا ہے، وہ سچ میں دوڑتا ہے، وہ اوپر سے نیچے آتا ہے اور نیچے سے اوپر جاتا ہے، وہ عرش پر بیٹھتا ہے، وہ آخرت میں تشریف لائے گا اور چونکہ اس کے دو پاوں ہیں تو ان کے خیال میں اس کو کرسی کی ضرورت ہے تاکہ اپنے پاوں وہاں پر رکھ سکے۔
اور بعض کتابوں کے نزدیک اس کا صرف ایک ہی پاوں ہے وہ جہنم میں ڈال دیتا ہے لیکن آگ اسے جلانے سے قاصر ہے اسی طرح سے جسطرح سے عذاب کے فرشتے، آگ میں ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔اسی طرح وہ خدا کے لئے اعضاء و جوارح جیسے ہاتھ، بہت ساری انگلیاں، پنڈلی اور بازو کے قائل ہیں۔ ان کی کتابوں کے مطابق معاذ اللہ خدا ساکن اور متحرک نزول و صعود کی حالت میں ہے، اگر وہ چاہے تو کسی مچھر کی پشت پر بیٹھ سکتا ہے اور یہ کہ وہ فطری طور پر اور واقعتا، عرش سے آسمان کی طرف اُترتا ہے۔ خدا اپنی مٹھی سے گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے نکال دیتا ہے اور بادلوں کے ساتھ جبکہ جبرئیل اس کی دائیں طرف ہے اور جہنم اس کی بائیں طرف ہے وہ نیچے آتا ہے ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔
المختصر کہ یہ خود کو اہل سنت والجماعت کہلانے والے مسلمان اللہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے جسم کی عبادت کرتے ہیں جوکہ ان کے مطابق عرش پر بیٹھا ہے؛جبکہ یہ جسم موجود ہی نہیں۔اس بناء پر یہ چہروں ، جسموں اور وہم و خیال کے پجاری ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہم خالص توحید کے پیروکاروں یعنی شیعوں کو مشرک، بت پرست اور قبوری کہتے ہیں۔جب کہ حقیقت میں ہم شیعانِ علیؑ ہی ہیں جو حقیقی ربوبیت میں موحد ہیں اور پروردگار سے واقف ہیں اور اللہ کو ان ناقص صفات سے پاک و منزہ سمجھتے ہیں جن کی نسبت اللہ کی طرف جسم پرست یہ سو کالڈ توحیدی دیتے ہیں۔
اب آؤ تم لوگ اور ہم شیعوں کو پہلے اپنی ایمانیات کا امتحان دو پھر مسلمان قرار پا کر ہم سے عقیدتی سوالات کرنا ۔۔
تو شروع کرتا ہوں اس بزرگ و برتر کے پاک نام سے جو اجزائے ترکیبی نہیں رکھتا کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے اجزاء کی احتیاج پیدا کرتا جبکہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔
اس خداوند متعال کے نام سے شروع کرتا ہوں جو جسم نہیں رکھتا کیونکہ ہر جسم محدود، متغیر اور نابودی کے قابل ہوتا ہے۔
اس کے نام سے شروع جو مرئی نہیں ہے یعنی دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اگر وہ دکھائی دیتا تو جسم ہوتا اور محدود اور قابل فنا ہوتا۔
اسی عظیم رب کے نام سے جو کوئی محل نہیں رکھتا کیونکہ وہ جسم نہیں ہے تاکہ اسے محل کی ضرورت پڑے۔
شروع کرتا ہو اس خدا کے نام سے جس کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو اسے ایک محدود موجود ہونا چاہئے تھا چونکہ دو لامحددود موجودات ہر جہت سے نا ممکن ہیں۔۔
المختصر میں شروع کرتا ہوں لیس کمثلہ شیءٍ سے اور اس خدا سے جو اہل بیتؑ کا خالق و مالک و رازق ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله رب العالمين وصلى الله على سيد الخلق محمد المبعوث للرسالة وعلى آله الأئمة الهداة
اللهمّ صلّ على فاطمة وأبيها وبعلها وبنيها والسرّ المستودع فيها السلام عليكِ يا عصمة الله الكبرى فاطمة الزهراء (عليها السلام)
علمی کتابی افراد کی توحید کا فل فلیش آپریشن ۔۔۔
سب سے پہلے بھیا اسماعیل بخاری کی اس کتاب سے جو قرآن کے بعد مبینہ طور پر سب سے صحیح کتاب ہے ۔۔
(قدسي) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:” تحاجت الجنة والنار، فقالت النار: اوثرت بالمتكبرين والمتجبرين، وقالت الجنة: ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم، قال الله تبارك وتعالى للجنة: انت رحمتي، ارحم بك من اشاء من عبادي، وقال للنار: إنما انت عذابي، اعذب بك من اشاء من عبادي، ولكل واحدة منهما ملؤها، فاما النار فلا تمتلئ حتى يضع رجله، فتقول: قط قط، فهنالك تمتلئ ويزوى بعضها إلى بعض، ولا يظلم الله عز وجل من خلقه احدا، واما الجنة، فإن الله عز وجل ينشئ لها خلقا
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں حمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» ”اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے۔“
صحيح البخاري ، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ ، باب 1 : حدیث نمبر: 4850
یہی حدیث بخاری نے یہاں بھی نقل کی ہے ۔۔
صحيح البخاري ، كِتَاب التَّوْحِيدِ ، باب 25 : حدیث نمبر: 7449
اسی سے ملتی جلتی احادیث صحیح مسلم میں بھی ہیں اور مسند احمد بن حنبل میں بھی
بخاری میں ایک اور طویل حدیث میں یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔۔ ربنا، قال: فياتيهم الجبار في صورة غير صورته التي راوه فيها اول مرة، فيقول: انا ربكم، فيقولون: انت ربنا، فلا يكلمه إلا الانبياء، فيقول: هل بينكم وبينه آية تعرفونه؟، فيقولون: الساق، فيكشف عن ساقه، فيسجد له كل مؤمن ويبقى من كان يسجد لله ۔۔۔
بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا۔ پھر پوچھے گا: کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ «ساق.» پنڈلی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا۔
صحيح البخاري، كِتَاب التَّوْحِيدِ ، باب 24 : حدیث نمبر: 7439
تو اہل سنت مبینہ توحیدی ٹولے کے خدا کا پیر اور اس کی پنڈلی ملاحظہ فرما لی ہوگی اب اس کا ہاتھ ہونا بھی ملاحظہ فرمائیں
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:” يد الله ملاى لا يغيضها نفقة سحاء الليل والنهار، وقال: ارايتم ما انفق منذ خلق السموات والارض فإنه لم يغض ما في يده، وقال: عرشه على الماء وبيده الاخرى الميزان يخفض ويرفع”.
۔۔۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، اسے رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ جب اس نے آسمان و زمین پیدا کئے ہیں اس نے کتنا خرچ کیا ہے اس نے بھی اس میں کوئی کمی نہیں پیدا کی جو اس کے ہاتھ میں ہے اور فرمایا کہ اس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے، جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ ، باب 19 : حدیث نمبر: 7411
یہی حدیث بخاری کی کتاب التفسیر کے باب 2 پر بھی موجود ہے جس کا حدیث نمبر 4684
اور یہی حدیث صحیح مسلم، مشكوة المصابيح، جامع الترمذي، سنن ابن ماجه اور صحيفة همام بن منبه میں صحیح سند سے موجود ہے، پھکی کے طور پر صحیح مسلم کا حوالہ لگے ہاتھ دیتا چلوں۔۔
صحيح مسلم، كِتَاب الزَّكَاةِ ، باب 11 ، حدیث نمبر: 2308
ہاں جی اب جبکہ ان کے خدا کے پیروں کے ساتھ ہاتھ بھی ثابت ہو چکے تو آئیں ان ہاتھوں سے آپ کو مصافحہ بھی دکھاتے ہیں اور بھی قاتل فاطمہ زہراؑ کے ساتھ یعنی اللہ کا مصافحہ عمر بن خطاب کے ساتھ (معاذاللہ)
ملاحظہ فرمائیں۔۔
حدثنا إسماعيل بن محمد الطلحي ، انبانا داود بن عطاء المديني ، عن صالح بن كيسان ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي بن كعب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” اول من يصافحه الحق عمر، واول من يسلم عليه، واول من ياخذ بيده، فيدخله الجنة”.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق تعالیٰ سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے“۔
سنن ابن ماجه ، باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ، 13. بَابُ : فَضْلِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، حدیث نمبر: 104
ارے کیا ہوا ۔۔ آپ حضرات تو فقط اللہ کا عمر سے ہاتھ ملانا دیکھ کر ہی ششدر ہیں ابھی رکیں ابھی میں آپ کو قاتل زہراؑ کے ایسے فضائل مزید دکھاتا ہوں جس سے توحید کی دھجیاں مزید بکھر جائیں گی۔۔
ملاحظہ فرمائیں ۔۔ ان کے اللہ میاں کا قاتل فاطمہ زہرا یعنی عمر بن خطاب سے گلے ملنا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کروانا۔۔
أخبرنا عبد الله بن إسحاق إبن الخراساني العدل ببغداد ثنا أحمد بن محمد بن عبد الحميد الجعفي ثنا الفضل بن جبير الوراق ثنا إسمعيل بن زكريا الخلقاني ثنا يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب عن أبي بن كعب ( ر ) قال سمعت النبي (ص) يقول : أول من يعانقه الحق يوم القيامة عمر وأول من يصافحه الحق يوم القيامة عمر وأول من يؤخذ بيده فينطلق به إلى الجنة عمر بن الخطاب ( ر )
۔۔۔ ابی بن کعب کہتا ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ : قیامت کے دن سب سے پہلا شخص جسے اللہ گلے لگائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس سے اللہ قیامت کے دن مصافحہ کرے گا وہ عمر ہے اور پہلا شخص جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جایا جائے گا وہ عمر بن خطاب ہے۔
كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم – ط العلمية ، الجزء 3، باب : ومن مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه – رقم الصفحة : 90 ، رقم الحديث : 4489
ان کے امام طبری بھی اسے نقل کرتے ہیں، حوالہ ملاحظہ فرمائیں
كتاب الرياض النضرة في مناقب العشرة، الباب الثاني: في مناقب أمير المؤمنين أبي حفص عمر بن الخطاب رضي الله عنه الفصل السادس: في خصائصه، الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 308 )
تاریخ دمشق کا بھی حوالہ لیتے جائیں ۔۔
كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر ، حرف العين المهملة عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، الجزء : ( 44 ) – رقم الصفحة : ( 158 ) – رقم الحديث: 5206
اب یہ بھی دیکھیں کہ خدا کہاں پر بیٹھتا ہے اپنے جسم کے ساتھ (معاذاللہ)
ایک بار عمر بن خطاب کے ہونہار بیٹے کے دماغ میں ایک سوال آیا جو اس نے ابن عباس سے پوچھا ملاحظہ فرمائیں مع مکمل سند کے ساتھ اور وہ بھی اہل سنت کے عقائد پر لکھی کتاب میں ۔۔ یعنی جہاں عقائد کا بیان ہو وہاں تو ہلکی سے بھی ضعیف حدیث چل ہی نہیں سکتی ۔۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: ثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، بَعَثَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ يَسْأَلُهُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ ⦗٤٨٤⦘ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ: أَنْ نَعَمْ فَرَدَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَسُولَهُ أَنْ كَيْفَ رَآهُ؟ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ «رَآهُ فِي رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ دُونَهُ فِرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ عَلَى كُرْسِيٍّ مِنْ ذَهَبٍ تَحْمِلُهُ أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مَلَكٌ فِي صُورَةِ رَجُلٍ، وَمَلَكٌ فِي صُورَةِ ثَوْرٍ، وَمَلَكٌ فِي صُورَةِ نَسْرٍ، وَمَلَكٌ فِي صُورَةِ أَسَدٍ»
۔۔۔ کہ عبداللہ ابن عمر نے ابن عباس کو پیغام بھیجا اور پوچھا کہ کیا رسول اللہ (ص) نے اللہ کو دیکھا ہے ؟
ابن عباس نے جواب دیا : ہاں، تو ابن عمر بھیجے شخص نے سوال کیا کہ کس کیفیت میں ؟ تو ابن عباس نے کہا :
اللہ سبز گھاس پر سونے کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جسے چار فرشتے اٹھائے ہوئے تھے جن میں ایک فرشتہ انسانی شکل میں تھا، دوسرا بیل کی شکل کا، تیسرا عقاب کی شکل کا اور چوتھا شیر کی شکل کا۔ (العیازباللہ )
حوالہ:
كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عز وجل لابن خزيمة ، الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 483 ) – رقم الحديث: 48
یہ ہیں توحیدی اہل سنت امام جو خدا کی توحید اور اس کی صفات کو ثابت کرنے والی کتاب میں ایسی غیر توحیدی حدیث سے نجانے کیا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔
اس نام نہاد امام خزیمہ کا درجہ اہل سنت میں کیا ہے یہ بھی مختصر بیان کردوں تاکہ دیگر اہل سنت علماء کا عقلی معیار آپ سب پر واضح ہو جائے ۔۔
امامِ اہل سنت شمس الدین ذہبی، ابن حزیمہ کو ان القاب سے یاد کرتا ہے : الحافظ الحجۃ الفقیہ، شیخ الاسلام، امام الآئمہ
حوالہ : تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 261/262
امامِ اہل سنت ابن حبان لکھتا ہے : میں نے روئے زمین پر بجز امام ابن خزیمہ جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا جسے فن حدیث میں اِس قدر مہارت ہو کہ اُسے صحیح الفاظ اور زیاداتِ حدیث اِس طرح یاد ہوں کہ گویا حدیث کی سب کتابیں اُس کے سامنے کھلی پڑی ہیں۔
حوالہ : تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 261/262
امامِ اہل سنت دارقطنی نے کہا ہے کہ ابن خزیمہ پختہ کار اور بے نظیر عالم تھے۔
حوالہ : تذکرۃ الحفاظ، جلد 2، صفحہ 266
المختصر کہ اہل سنت کا ایک ایسا امام جو حافظ الحجۃ ہو، فقیہ ہو، شیخ الاسلام ہو اور سب سے بڑھ کر تمام اہل سنت آئمہ کا بھی امام ہو یعنی امام الآئمہ ۔۔ وہ اپنی توحید پر لکھی کتاب میں ایسی توحید بیان کرے جس سے خدا کا مجسم ہونا ثابت ہو تو پھر آگے بچتا ہی کیا ہے ؟؟
اگر اب بھی کسی کو یہ حدیث قبول نہ ہو تو اس کے مزید حوالے بطور حلوہ پیش کیے دیتا ہوں، ہمارے مشرک بھائی مزے لے کر کھائیں۔۔
اسی حدیث کو امام بہیقی نے بھی نقل کیا ہے
حوالہ : كتاب الأسماء والصفات – البيهقي، الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 361 ) – رقم الحديث: 934
الناشر: مكتبة السوادي، جدة – المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى، ١٤١٣ هـ – ١٩٩٣ م
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں ۔۔
حوالہ : كتاب الدر المنثور في التفسير بالمأثور ، الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 648 ) – رقم الحديث: 6 ، الناشر: دار الفكر – بيروت
شمس الدین ذہبی نے اپنی میزان میں ۔۔
حوالہ : كتاب ميزان الاعتدال – شمس الدين الذهبي ، الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 473 )
تحقيق: علي محمد البجاوي، الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت – لبنان ، الطبعة: الأولى، ١٣٨٢ هـ – ١٩٦٣ م
ابن جوزی نے العلل میں ۔۔
حوالہ : كتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ، الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 24 ) – رقم الحديث: 19
المحقق: إرشاد الحق الأثري ، الناشر: إدارة العلوم الأثرية، فيصل آباد، باكستان ، الطبعة: الثانية، ١٤٠١هـ/١٩٨١م
امام ابن احمد نے السنہ میں ۔۔
حوالہ : كتاب السنة لعبد الله بن أحمد ، الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 175 ) – رقم الحديث: 217
المحقق: د. محمد بن سعيد بن سالم القحطاني ، الناشر: دار ابن القيم – الدمام ، الطبعة: الأولى، ١٤٠٦ هـ – ١٩٨٦ م
فی الحال اس حدیث کے اتنے حوالے ہی کافی ہیں ۔۔ اب آگے بڑھتے ہیں
اگر کتب اہل سنت کا مطالعہ کریں تو ان کے علماء کی توحید کے بارے میں رائے انسان کو ان کے مسلمان ہونے سے خارج کر دیتی ہے ۔۔ ملاحظہ فرمائیں کہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب لسان الامیزان میں اپنے امام ابن حزم کے بارے میں کیا کچھ لکھ رہا ہے، ارے وہی ابن حزم جس کے بارے میں اہل سنت علماء کا دعویٰ ہے کہ اگر اس کی یہ دو کتابیں المحلی اور الاحکام فی اصول الاحکام نہ ہوتیں تو مسلکِ اہل سنت کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا ۔۔ ذرا اس امام کی توحید ملاحظہ فرمائیں :
ذكر ابن حزم انه كان مجسما وكان يقول إن ربه في صورة انسان لحم ودم ويفرح ويحزن ويمرض ويفيق
ترجمہ : ابن حزم نے ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ کو مجسم مانتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ اس کا رب ایک انسان، گوشت اور خون کی صورت میں ہے، جو خوش ہوتا ہے اور غم کرتا ہے، بیمار ہوتا ہے اور بیدار ہوتا ہے۔
حوالہ : كتاب لسان الميزان – ابن حجر العسقلاني ، الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 63 ) – رقم : 591
المحقق: دائرة المعرف النظامية – الهند ، الناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت – لبنان ، الطبعة: الثانية، ١٣٩٠هـ /١٩٧١م
چلیں دوبارہ ان کے عظیم محدثین کی طرف پلٹے ہیں اور ان کی کتابوں میں توحید کس شکل میں ملاحظہ فرماتے ہیں۔۔
امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ جَابِرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ ذَاتَ غَدَاةٍ وَهُوَ طَيِّبُ النَّفْسِ، مُسْفِرُ الْوَجْهِ، أَوْ مُشْرِقُ الْوَجْهِ، قُلْنَا: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّا نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ، مُسْفِرَ الْوَجْهِ، أَوْ مُشْرِقَ الْوَجْهِ، فَقَالَ: ” وَمَا يَمْنَعُنِي، وَأَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّي وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي أَيْ رَبِّ، قَالَ: ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: فَوَضَعَ كَفَّيْهِ بَيْنَ كَتِفَيَّ، فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى تَجَلَّى لِي مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ {وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ} ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟ قُلْتُ: الْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ ، وَالْجُلُوسُ فِي الْمَسْجِدِ خِلَافَ الصَّلَوَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، قَالَ: مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ
۔۔۔ رسول اللہ نے فرمایا : اور میرا رب آج رات میرے پاس بہترین شکل میں آیا اور کہا: اے محمد، تو میں نے کہا: میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، میرے رب، اور میں آپ سے خوش ہوں، اس نے اپنی ہتھیلیاں میرے کندھوں کے درمیان رکھ دیں اور میں نے اپنے سینوں کے درمیان اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔۔۔
حوالہ : كتاب مسند أحمد – ط الرسالة ، الجزء : ( 27 ) – رقم الصفحة : ( 171 ) – رقم الحديث: 16621
المحقق: شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون ، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي ، الناشر: مؤسسة الرسالة ، الطبعة: الأولى، ١٤٢١ هـ – ٢٠٠١ م
امام ہیثمی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور آخر میں اس کی اسناد کو رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ لکھا ہے ، حوالہ ملاحظہ فرمائیں
حوالہ : كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ، كتاب التعبير ، باب فيما رآه النبي صلى الله عليه وسلم في المنام ، الجزء : ( 7 ) – رقم الصفحة : ( 176 ) – رقم الحديث: 11737
المحقق: حسام الدين القدسي، الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة ، عام النشر: ١٤١٤ هـ، ١٩٩٤ م
اب ایسی ہی حدیث ترمذی مبینہ شریف میں بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔
(قدسي) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي قلابة، عن خالد بن اللجلاج، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” اتاني ربي في احسن صورة، فقال: يا محمد، قلت: لبيك رب وسعديك، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: رب لا ادري، فوضع يده بين كتفي فوجدت بردها بين ثديي فعلمت ما بين المشرق والمغرب، فقال: يا محمد، فقلت: لبيك رب وسعديك، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: في الدرجات، والكفارات، وفي نقل الاقدام إلى الجماعات، وإسباغ الوضوء في المكروهات، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، ومن يحافظ عليهن عاش بخير ومات بخير وكان من ذنوبه كيوم ولدته امه “. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، قال: وفي الباب، عن معاذ بن جبل، وعبد الرحمن بن عائش، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد روي هذا الحديث عن معاذ بن جبل، عن النبي صلى الله عليه وسلم بطوله، وقال: ” إني نعست فاستثقلت نوما فرايت ربي في احسن صورة، فقال: فيم يختصم الملا الاعلى “.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے میرا رب بہترین صورت میں نظر آیا، اور اس نے مجھ سے کہا: محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں تیری خدمت میں حاضر و موجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: (میرے) رب! میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت و عزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان (سینے میں) محسوس کی، اور مجھے مشرق و مغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہو گیا، (پھر) کہا: محمد! میں نے عرض کیا: (میرے) رب! میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجودگی میری خوش بختی ہے، فرمایا: فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے کہا: انسان کا درجہ و مرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کیا کیا ہیں) تکرار کر رہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو جائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک و صاف تھا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 5787) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3233)
حوالہ : سنن ترمذي ، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، 39. باب وَمِنْ سُورَةِ ص ، حدیث نمبر: 3234
اختصار لاحق ہے ورنہ تمام کتابوں سے اس حدیث کو نقل کرتا ۔۔ تو کچھ کے نام لکھ رہا ہوں ۔۔
1- العلل المتناهية في الأحاديث الواهية [ابن الجوزي]
2- الجامع لعلوم الإمام أحمد – العقيدة [أحمد بن حنبل]
3- رؤية الله للدارقطني [الدارقطني]
4- جامع المسانيد لابن الجوزي [ابن الجوزي]
5- الدر المنثور في التفسير بالمأثور [الجلال السيوطي]
6- مسند البزار = البحر الزخار [أبو بكر البزار]
7- مسند أبي يعلى – ت حسين أسد [أبو يعلى الموصلي]
فی الحال اتنے ہی حوالے کافی ہیں اس ایک عجیب و غریب حدیث کے لیے ۔۔ ورنہ 46 سے اوپر کتابوں میں یہ درج ہے ۔۔
اب آخرت میں خدا کو دیکھنے پر اہل سنت روایات ملاحظہ فرمائیں
حدثنا عبدة بن عبد الله، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، حدثنا بيان بن بشر، عن قيس بن ابي حازم، حدثنا جرير، قال:” خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة البدر، فقال: إنكم سترون ربكم يوم القيامة كما ترون هذا لا تضامون في رؤيته”.
۔۔ جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودھویں رات کو ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم اپنے رب کو قیامت کے دن اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہو گی۔ کھلم کھلا دیکھو گے، بےتکلف، بےمشقت، بےزحمت۔
حوالہ : صحيح البخاري ، كِتَاب التَّوْحِيدِ ، بَابُ 24 ، حدیث نمبر: 554
یہ روایت صحیح بخاری میں 6 الگ الگ جگہوں پر نقل ہوئی ہے اور اہل سنت کے منابع میں تقریباً 15 طرق میں موجود ہے جس میں صحیح مسلم، جامع الترمذي، سنن أبي داود ، سنن ابن ماجه ، مسند الحميدي ، الدر المنثور، سنن الدارمي وغیرہ شامل ہیں جو اختصار کے پیش نظر یہاں نقل نہیں کر رہا ۔۔
چلیں اب ان کے خدا کا نازل ہونا بھی بیان کر دیا جائے ۔۔
دارمی کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں جس میں یہ اپنے خدا کو کرسی پر ایسے اتار رہا ہے جیسے یہ معاذاللہ خدا نہیں بلکہ تامل فیلموں کا کوئی ہیرو ہو ۔۔ العیاذ باللہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قِيلَ لَهُ: مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ؟ قَالَ: ” ذَاكَ يَوْمٌ يَنْزِلُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى كُرْسِيِّهِ يَئِطُّ كَمَا يَئِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِيدُ مِنْ تَضَايُقِهِ بِهِ، وَهُوَ كَسَعَةِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَيُجَاءُ بِكُمْ حُفَاةً، عُرَاةً، غُرْلًا، فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: اكْسُوا خَلِيلِي، فَيُؤْتَى بِرَيْطَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ مِنْ رِيَاطِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أُكْسَى عَلَى أثْرِهِ، ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ مَقَامًا يَغْبِطُنِي الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ
۔۔۔۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ بنی سے پوچھا گیا کہ مقام محمود کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس دن جب اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر اترے گا اور وہ کرسی (وزن) اور تنگی کی وجہ سے اس طرح چرچراتی ہوگی جیسے نیا پالان چرچراتا ہے حالانکہ وہ اتنی کشادہ ہوگی جتنی آسمان و زمین کے درمیان مسافت ہے ۔۔۔۔
حوالہ : كتاب مسند الدارمي، كتاب الرقاق، باب: في شأن الساعة ونزول الرب تعالى ، الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 1845 ) – رقم الحديث: 2842
تحقيق: حسين سليم أسد الداراني [ت ١٤٤٣ هـ] ، الناشر: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية ، الطبعة: الأولى، ١٤١٢ هـ – ٢٠٠٠ م
دارمی کی یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
(حديث قدسي) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ مُلُوكُ ⦗١٨٤٥⦘ الْأَرْضِ؟ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے:
”(قیامت کے دن) الله تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: آج صرف میں بادشاہ ہوں دنیا کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2841]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4812]، [مسلم 2787]، [أبويعلی 5850]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حوالہ : كتاب مسند الدارمي، كتاب الرقاق، باب: في شأن الساعة ونزول الرب تعالى ، الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 1844 ) – رقم الحديث: 2841
تحقيق: حسين سليم أسد الداراني [ت ١٤٤٣ هـ] ، الناشر: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية ، الطبعة: الأولى، ١٤١٢ هـ – ٢٠٠٠ م
لو جی دارمی جی کمال کر دیا آپ نے ۔۔ ھاھاھاھا
اب تحریر طویل ہوتی جا رہی ہے تو فقط روایت کا متن اور حوالہ لکھتا ہوں ترجمہ کی ضرورت نہیں
– 274 – عن عمر (ر) : أن إمرأة أتت النبي (ص) ، فقالت : إدع الله أن يدخلني الجنة فعظم الرب تبارك وتعالى وقال : إن كرسيه وسع السموات والأرض وإن له أطيطاً ، كأطيط الرحل الجديد إذا ركب من ثقله ، رواه البزار ورجاله رجال الصحيح.
حوالہ : الهيثمي – مجمع الزوائد – كتاب الإيمان – باب – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 83 )
– 17272 – وعن عمر ( يعني إبن الخطاب ) قال : أتت إمرأة النبي (ص) ، فقالت : إدع الله أن يدخلني الجنة ، قال : فعظم الرب تبارك وتعالى وقال : إن كرسيه وسع السماوات والأرض ، وإن له أطيط كأطيط الرحل الجديد إذا ركب من ثقله ، رواه أبو يعلى في الكبير ، ورجاله رجال الصحيح غير عبد الله بن خليفة الهمذاني وهو ثقة.
حوالہ : الهيثمي – مجمع الزوائد – كتاب الأدعية – باب فيما يستفتح به الدعاء من حسن الثناء على الله سبحانه والصلاة على النبي محمد (ص) – الجزء : ( 10 ) – رقم الصفحة : ( 159 )
– عن إبن مسعود ، عن ناس من أصحاب رسول الله (ص) في قوله : وسع كرسيه السموات والأرض ، فإن السموات والأرض في جوف الكرسي والكرسي بين يدى العرش ، وأرباب أنا يحملونها على عظم الملك وجلالة السلطان ، وينكرون وجود العرش والكرسي وليس بشئ ، وأهل الحق يجيزونهما ، إذ في قدرة اللهمتسع فيجب الإيمان بذلك ، قال أبو موسى الأشعري : الكرسي موضع القدمين وله أطيط كأطيط الرحل.
حوالہ : القرطبي – الجامع لأحكام القرآن – سورة البقرة – قوله تعالى : الله لا إله إلا هو الحي القيوم – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 253 )
– 59 – حدثنا : الحسن بن علي ، وإسماعيل بن إبراهيم بن غزوان قالا : ، نا : عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثني : أبي ، نا : محمد جحاده ، عن سلمة بن كهيل ، عن عمارة ، عن أبي بن عمير موسى قال : الكرسي موضع القدمين وله أطيط كأطيط الرحل.
حوالہ : إبن أبي شيبة – كتاب العرش – رقم الصفحة : ( 78 )
ابھی بھی ان کے خدا کے وزن سے کرسی چرچرانے کے مزید 21 حوالے رہتے ہیں جنہیں نقل نہیں کر رہا ۔۔
اب ان کے خدا کا عرش پر آرام کرنے کا احوال بیان ہو جائے (العیاذباللہ)
– حدثنا : محمد بن منصور الطوسي ، قال : ثنا : حسين بن محمد ، عن أبي معشر ، عن محمد بن قيس قال : جاء رجل إلى كعب فقال : يا كعب أين ربنا ؟ فقال له الناس : دق الله تعالى ، أفتسأل عن هذا ؟ فقال كعب : دعوه ، فإن يك عالماً إزداد ، وإن يك جاهلاً تعلم ، سألت أين ربنا ، وهو على العرش العظيم متكئ ، واضع إحدى رجليه على الأخرى ….
پوچھا اللہ کہاں ہے تو ۔۔جواب ۔۔ وہ عرش عظیم پر تکیہ لگائے ہوئے ہے اور اپنی ایک ٹانگ دوسری پر رکھے ہوئے ہے۔(معاذاللہ)
حوالہ : الطبري – تفسير الطبري – تفسير سورة الشورى – القول في تأويل قوله تعالى : له ما في السماوات وما في الأرض وهو العلي العظيم – الجزء : ( 21 ) – رقم الصفحة : ( 501 )
اسی خرافات کے ضمن میں تقریباً 6 مزید حوالے ہیں جن کا متن نہیں فقط حوالہ پیش کر رہا ہوں ۔۔
أبو يعلى الفراء – إبطال التأويلات لأخبار الصفات – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 188 / 189 / 190 ) – الرقم : ( 182 )
أبي بكر بن أبي عاصم الخلال – السنة – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 248 / 249 ) – رقم : ( 568 ) – ط المكتب الإسلامي / بيروت – سنة 1400هـ- 1980م ط.1
إبن عثيمين – فتح رب البرية بتلخيص الحموية – رقم الصفحة : ( 15 ) – منقول من موقعه الرسمي
السبكي – السيف الصقيل رد ابن زفيل – هامش الصفحة : ( 200 )
الهيثمي – مجمع الزوائد ومنبع الفوائد – كتاب الأدب – باب فيمن يضطجع ويضع إحدى رجليه على الأخرى – الجزء : ( 19 ) – رقم الصفحة : ( 13 )
الطبراني – المعجم الكبير – باب القاف – من إسمه قتادة – قتادة بن النعمان الأنصاري – ما أسند قتادة بن النعمان – عبيد بن حنين عن قتادة بن النعمان – الجزء : ( 19 ) – رقم الصفحة : ( 13 )
چلیں مزید آگے چلتے ہیں پر ذرا جلدی جلدی ۔۔ تحریر لکھنے بیٹھا تھا پوری کتاب ہی بنتی جا رہی ہے ۔۔
اب دیکھتے ہیں کہ ان کا خدا جب کچھ بھی نہ تھا تو کہاں رہتا تھا ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن يعلى بن عطاء، عن وكيع بن حدس، عن عمه ابي رزين، قال: قلت: يا رسول الله، اين كان ربنا قبل ان يخلق خلقه؟ قال: ” كان في عماء ما تحته هواء وما فوقه هواء وخلق عرشه على الماء – وهذا حديث حسن
ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا: ” وہ عماء میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ ہی اس کے اوپر۔ اس نے اپنا عرش پانی پر بنایا“ اور امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
حوالہ : سنن ترمذي ، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، 12. باب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ ، حدیث نمبر: 3109
اس عنوان کی مزید 8 احادیث کے حوالہ یہ ہیں (متن اور ترجمہ نہیں پیش کر رہا)
مسند أحمد – أول مسند المدنين (ر) – حديث أبي رزين العقيلي لقيط بن عامر المنتفق (ر) ، حدیث 15767
سنن إبن ماجه – كتاب المقدمة – باب فيما أنكرت الجهمية ، حدیث 182
إبن أبي عاصم – السنة – باب : ( كان في عماء ) ، حدیث 497
الطبراني – المعجم الكبير – باب السلام ، حدیث 15195
إبن أبي شيبة – العرش وما روي فيه – كتاب العرش ، حدیث 7
أبي الشيخ الإصبهاني – العظمة – باب الأمر، حدیث 83
البيهقي – الأسماء والصفات – باب ما جاء في قول الله عز وجل : الرحمن علي العرش إستوى، حدیث 833
الطبري – جامع البيان – القول في تفسير السورة .. حدیث 16500
اب ان کے خدا کا چلنا پھرنا اور ہسنا ملاحظہ فرمائیں۔۔
حدثني عبيد الله بن سعيد ، وإسحاق بن منصور كلاهما،۔۔۔۔۔ من تنظرون؟ فيقولون: ننظر ربنا، فيقول: انا ربكم، فيقولون: حتى ننظر إليك، فيتجلى لهم يضحك، قال: فينطلق بهم، ويتبعونه، ۔۔۔۔ (حدیث طویل ہے تو وہی پورشن پیش کر رہا ہوں جو ہمارا مدعا ہے )
۔۔۔ پھر دوسری امت بعد اس کے ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا: تم کس کو دیکھ رہے ہو؟ (یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا۔) وہ کہیں گے: ہم اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہیں (یعنی اس کے منتظر ہیں) پروردگار فرمائے گا: میں تمہارا مالک ہوں وہ کہیں گے: ہم تجھ کو دیکھیں (تو معلوم ہو) پھر دکھائی دے گا پروردگار ان کو ہنستا ہوا اور ان کے ساتھ چلے گا ۔۔۔۔
حوالہ : صحيح مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ ، 84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا ، حدیث نمبر: 469
اب اسی سلسلے کی مزید 15 روایات ہیں جن کے فقط حوالے پیش کر دیتا ہوں تاکہ تحریر مزید طویل نہ ہو۔۔
صحيح البخاري – أبواب صفة الصلاة – باب فضل السجود ، حدیث 773
صحيح مسلم – كتاب الإيمان – باب معرفة طريق الرؤية ، حدیث 182
صحيح مسلم – كتاب الإمارة – باب بيان الرجلين يقتل أحدهما الآخر يدخلان الجنة، حدیث 1890
مسند أحمد – من مسند بني هاشم – بداية مسند عبد الله بن العباس (ر) ، حدیث 3049
مسند أحمد – باقي مسند المكثرين – مسند أبي هريرة (ر) ، حدیث 7660
مسند أحمد – باقي مسند المكثرين – مسند أبي سعيد الخدري (ر) حدیث 11352
مسند أحمد – من مسند القبائل – من حديث أسماء إبنة يزيد (ر) حدیث 27034
سنن النسائي – كتاب الجهاد – تفسير ذلك ، حدیث 3166
سنن إبن ماجه – كتاب المقدمة – باب فيما أنكرت الجهمية ، حدیث 200
موطأ مالك – كتاب الجهاد – باب الشهداء في سبيل الله ، حدیث 1000
إبن تيمية – العقيدة الواسطية – متن العقيدة الواسطية – فصل الإيمان بسنة رسول الله (ص) – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 57 )
المتقي الهندي – كنز العمال – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 236 ) ، حدیث 1184
السيوطي – الدر المنثور – الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 291 )
السيوطي – الدر المنثور – الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 292 )
السيوطي – الدر المنثور – الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 293 )
بس بس بس قارئین ۔۔
اب مجبورا یہاں خود کو روکنا پڑے گا ورنہ ان کی کتابوں میں توہین خدا اگر پیش کرتا چلا گیا تو پوری کتاب ہی لکھنا پڑے گی ۔۔
تو اب تمام وہ حضرات جو کتابوں کے خدا کو ماننے کا دم بھرتے ہوئے توحید کی مالا جھپتے ہیں وہ یا تو ان کتابوں سے برات کا اظہار کر کے حقیقی مکتب اہل بیت کو قبول کریں ورنہ پھر ایسے ہی ہندوؤں جیسے خدا کو مان کر آنکھیں بند کیے رہیں ۔۔
والسلام
عبدِ حقیر #ابوعبداللہ