بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدُ بْنَ عَبْدِاللّهِ أُصِبْنا بِکَ یَا حَبِیبَ قُلُوبِنا، فَمَا أَعْظَمَ الْمُصِیبَةَ بِکَ حَیْثُ انْقَطَعَ عَنَّا الْوَحْیُ وَحَیْثُ فَقَدْنَاکَ فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ راجِعُونَ
رسول اللہ کی ولادت کا دھوم دھام سے جشن منانے والے یقیناً لائقِ تحسین ہیں لیکن یہ رسول سے مکمل عشق نہیں کہ فقط معشوق کی خوشی میں خوش ہو جاؤ اور اسی معشوق کے غم میں خود کو غمگین نہ کرو اور جن افراد نے معشوق کو تکلیف دی اور اسے زہر سے مسموم کر کے شہید کیا ان سے اعلانیہ برات کا اظہار نہ کرو..
بلکہ ایسا ادھورا عمل مسلکِ عشق میں عشق و معشوق کی صریحاً توہین شمار ہوتی ہے…
اگر یہاں میں فلسفہ عشق مابینِ عاشق و معشوق پر لکھنے بیٹھ گیا تو یقین مانیں یہ تحریر پوری کتاب کی شکل اختیار کر جائے گی کیونکہ میں بھی اسی مسلک کا پیروکار ہوں اور اسی جذبہ عشق کو میں نے خاندانِ عصمت و طہارت سے بہت دقیق انداز میں کسب کیا ہے.
خیر مختصر کرتے ہوئے میں یہاں فقط ان تاریخی حقائق سے پردہ اٹھا کر عاشقِ رسول ہونے کا نعرہ بلند کرنے والے تمام امتیوں کو دعوتِ فکر دوں گا کہ وہ اپنے عشق کو تکمیل کے درجے پر فائز کریں اور ولادتِ رسول کے جشن جیسی عظیم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے رسول کی شھادت بھی بھر پور انداز سے منائیں اور شہید کرنے والوں پر “لا نت” کریں ۔
اب میں براہ راست رسول اللہ کی زہر سے شہادت اور جنہوں نے کائنات کا یہ غلیظ ترین مجرمانہ کام انجام دیا ان کے حوالے پیش کر رہا ہوں.. لبیک یا رسول اللہ..
اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے رسول اللہ کی زہر سے شہادت کو عبد الله بن مسعود سے اس طرح نقل کیا ہے
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا عبد الرَّزَّاقِ ثنا سُفْيَانُ عَنِ الأَعْمَشِ عن عبد اللَّهِ بن مُرَّةَ عن أبي الأَحْوَصِ عن عبد اللَّهِ قال لأَنْ أَحْلِفَ تِسْعاً ان رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه و سلم قُتِلَ قَتْلاً أَحَبُّ الي من أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً انه لم يُقْتَلْ وَ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ نَبِيًّا وَ اتَّخَذَهُ شَهِيداً.
عبدالله بن مسعود سے روايت نقل ہوئی ہے کہ، اس نے کہا ہے کہ:
اگر میں 9 بار قسم کھاؤں کہ رسول خدا کو شہید کیا گیا تو یہ بات میرے لیے زیادہ پسندیدہ تر ہے اس سے کہ میں ایک بار قسم کھاؤں کہ رسول خدا کو قتل نہیں کیا گیا، کیونکہ خداوند نے ان کو پیغمبر اور شہید کہا ہے۔
امام ہيثمی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس حدیث کی صحت پر کہتے ہیں:
رواه أحمد و رجاله رجال الصحيح.احمد نے اس کو نقل کیا ہے اور اس کے راوی، کتاب صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
حوالہ : الهيثمي، ابوالحسن علي بن أبي بكر (متوفی 807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج9، ص34، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت
حاكم نيشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا:
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين و لم يخرجاه. یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط صحت کے مطابق صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس روایت کو نقل نہیں کیا
حوالہ : الحاكم النيسابوري، ابو عبدالله محمد بن عبدالله (متوفی 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص60، ح4394، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
اہل سنت کے معروف عالم امام حاکم نیشاپوری دوسری جگہ ایک صحیح سند کے ساتھ اپنی معتبر کتاب المستدرک علی الصحيحين میں لکھتے ہیں کہ:
ثنا داود بن يزيد الأودي قال سمعت الشعبي يقول و الله لقد سم رسول الله صلي الله عليه و سلم و سم أبو بكر الصديق و قتل عمر بن الخطاب صبرا و قتل عثمان بن عفان صبرا و قتل علي بن أبي طالب صبرا و سم الحسن بن علي و قتل الحسين بن علي صبرا رضي الله عنهم فما نرجو بعدهم.
داود بن يزيد کہتا ہے کہ میں نے شعبی سے سنا ہے کہ، اس نے کہا ہے کہ: خدا کی قسم رسول خدا اور ابو بکر کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا اور عمر، عثمان اور علی بن ابيطالب کو شمشير سے قتل کیا گیا تھا، جبکہ حسن بن علی کو بھی زہر سے اور حسين بن علی کو شمشير سے قتل کیا گیا تھا۔
حوالہ: المستدرك علي الصحيحين، جلد 3، صفحہ 61، حدیث 4395، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
تیسری روایت میں امام حاکم نقل کرتا ہے:
ثنا السري بن إسماعيل عن الشعبي أنه قال ماذا يتوقع من هذه الدنيا الدنية و قد سم رسول الله صلي الله عليه و سلم و سم أبو بكر الصديق و قتل عمر بن الخطاب حتف أنفه و كذلك قتل عثمان و علي و سم الحسن و قتل الحسين حتف أنفه.
سری بن اسماعيل نے شعبی سے نقل کیا ہے کہ، اس نے کہا ہے کہ: اس پست دنیا سے کیا امید لگانی ہے کیونکہ رسول خدا اور ابو بکر کو زہر دے کر شہید کیا گیا، عمر، عثمان اور علی بن ابيطالب کو قتل کیا گیا، جبکہ حسن بن علی کو بھی زہر دیا گیا اور حسين بن علی کو اچانک قتل کیا گیا۔
حوالہ : المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص67، ح4412، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
رہی یہ بات کہ کس نے اور کب رسول خدا (ص) کو زہر دیا، یہ بات بھی تاریخ کی بہت سی باتوں کی طرح خائن ہاتھوں اور ناپاک قلموں نے تحریف کرنے کی کوشش کی لیکن حق کو جتنا چھپایا جائے اتنا ہی واضح ہوتا ہے ۔
اب میں مسلمانوں کی قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب کے حوالے پیش کر رہا ہوں، فیصلہ انہی مسلمانوں پر چھوڑ کر جو اس کتاب کو بعد از کتابِ باری ، صحیح بخاری کہتے ہیں۔
امام بخاری و مسلم اور ان کے علاوہ اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے لکھا ہے کہ:
قالت عَائِشَةُ لَدَدْنَاهُ في مَرَضِهِ فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ لَا تَلُدُّونِي فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ فلما أَفَاقَ قال أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي قُلْنَا كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ فقال لَا يَبْقَي أَحَدٌ في الْبَيْتِ إلا لُدَّ و أنا أَنْظُرُ إلا الْعَبَّاسَ فإنه لم يَشْهَدْكُمْ.
عائشہ نے کہا ہے کہ میں نے رسول خدا کی بیماری کے دوران زبردستی ان کے منہ میں دوائی ڈالی، انھوں نے اشارے سے کہا کہ مجھے دوائی نہ دو، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید یہ اس وجہ سے ہے کہ مریض کا دوائی کھانے کو دل نہیں کرتا اور جب رسول خدا تندرست ہو گئے تو فرمایا کہ کیا میں نے تم کو منع نہیں کیا تھا کہ مجھے دوائی نہ دو ؟ پھر انھوں نے فرمایا کہ اس گھر میں جس نے بھی مجھے دوائی تھی تو اب ان سب کو میرے سامنے وہی دوائی پلاؤ غیر از عباس کہ اس نے تم لوگوں والا کام مجھ سے انجام نہیں دیا۔
حوالے ملاحظہ فرمائیں:
1- صحيح البخاري، ج4، ص1618، ح4189، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب مَرَضِ النبي (ص) وَوَفَاتِهِ؛
2- صحیح بخاری ج5، ص2159، ح5382، كِتَاب الطِّبِّ، بَاب اللَّدُودِ؛
3- صحیح بخاری ج6، ص2524، ح6492،كِتَاب الدِّيَاتِ، بَاب الْقِصَاصِ بين الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ في الْجِرَاحَاتِ؛
4- صحیح بخاری ج6، ص2527، ح6501، بَاب إذا أَصَابَ قَوْمٌ من رَجُلٍ هل يُعَاقِبُ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت،النيسابوري القشيري، ابو الحسين مسلم بن الحجاج (متوفی261هـ)،
5- صحيح مسلم، ج4، ص1733، ح2213، كِتَاب السَّلَامِ، بَاب كَرَاهَةِ التَّدَاوِي بِاللَّدُودِ، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت.
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ بخاری نے اس حدیث کو کتاب دیات، باب قصاص میں ذکر اور نقل کیا ہے۔
یعنی جس نے بھی رسول خدا (ص) کو جان بوجھ کر خلافت کی خاطر زہر دیا تھا، 14 سو سال سے ابھی تک اس پر قتل کا دیہ اور قصاص باقی ہے !!!
وہ دیہ اور قصاص انشاء اللہ اسی رسول خدا (ص) کے بیٹے اور جانشین یعنی حضرت مہدی امام زمان (عج) پردہ غیبت سے ظاہر ہو کر لیں گے۔
ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کی شرح میں لکھا ہے کہ:
(قوله لددناه) أي جعلنا في جانب فمه دواه بغير اختياره و هذا هو اللدود.یہ کہ کہا گیا ہے کہ: «لددنا» يعنی ہم نے زبردستی رسول خدا کے منع کرنے کے با وجود دوائی کو ان کے منہ میں ڈالا۔
یہاں ایک روایت وہ بھی نپٹاتا چلوں جو شھادتِ رسول کو چھپانے اور ان لوگوں کو چھپانے کے لئے گھڑی گئی جنہوں نے رسول اللہ کو زہر دیا پھر اس کے بعد کچھ سوالات پیش کر کے تحریر کو ختم کروں گا ۔ چلیں پھر اس گھڑی ہوئی حدیث کا پوسٹ مارٹم ہو جائے۔۔
امام بخاری نے اپنی کتاب صحيح بخاری میں لکھا ہے:
قالت عَائِشَةُ رضي الله عنها كان النبي صلي الله عليه و سلم يقول في مَرَضِهِ الذي مَاتَ فيه يا عَائِشَةُ ما أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الذي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ فَهَذَا أَوَانُ وَجَدْتُ انْقِطَاعَ أَبْهَرِي من ذلك السُّمِّ.
عائشہ نے کہا ہے کہ رسول خدا اپنے اس مرض میں کہ جس کے ذریعے وہ دنیا سے گئے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ جو کھانا میں نے خیبر میں کھایا تھا، ابھی تک اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہوں اور ابھی میں نے یوں محسوس کیا ہے کہ اسی کی وجہ سے میرے دل کی رگیں پھٹ گئی ہیں۔
حوالہ : البخاري الجعفي، ابو عبد الله محمد بن إسماعيل (متوفی256هـ)، صحيح البخاري، ج4، ص1611، ح4165، كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب مَرَضِ النبي (ص) وَ وَفَاتِهِ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت،
شاید بعض لوگ کہیں کہ یہ بہت بعید ہے کہ ایک زہر 4 سال کے بعد اپنا اثر کرے، اس کے علاوہ رسول خدا جنگ خیبر میں اس زہر کو کھانے سے پہلے بھیڑ کے زہر آلود گوشت کے بارے میں آگاہ ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے آپ نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی وجہ سے محقق علماء نے کہا ہے کہ کتاب صحیح بخاری کی یہ روایت جعلی اور جھوٹی ہے اور اسکے علاوہ خیبر میں رسول خدا کے زہر کھانے والے افسانے کو اس لیے گھڑا گیا تھا کہ لوگ زہر دینے والے اصل مجرم کی طرف متوجہ ہی نہ ہو سکیں ۔ ورنہ اسی کتاب صحیح بخاری میں اسی موضوع کے بارے میں ایسی احادیث موجود ہیں جنہیں اوپر بیان کیا گیا کہ اسلام اور رسول خدا سے سچی محبت رکھنے والا عقل مند مسلمان جان لیتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو انکی بیویوں میں سے کس نے جان بوجھ کر زہر دیا تھا!
جس طرح کہ ابن كثير دمشقی نے لکھا ہے کہ:و في صحيح البخاري «عن ابن مسعود قال: لقد كنا نسمع تسبيح الطعام و هو يؤكل» يعني بين يدي النبي و كلمه ذراع الشاة المسمومة و أعلمه بما فيه من السم۔صحيح
بخاری میں ابن مسعود سے نقل ہوا ہے کہ: وہ کہتا تھا کہ: ہم رسول خدا کے کھانا کھاتے وقت، کھانے کے تسبیح پڑھنے کی آواز کو سنا کرتے تھے، یعنی رسول خدا کے سامنے پڑا ہوا زہر آلود گوشت، رسول خدا سے باتیں کرتا تھا اور خود گوشت نے رسول خدا کو بتایا کہ مجھے نہ کھانا کیونکہ میں زہر آلود ہوں۔
حوالہ: ابن كثير الدمشقي،ابوالفداء إسماعيل بن عمر القرشی(متوفی774 هـ)، البداية و النهاية،ج 6،ص286، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.
تو کیسے ممکن ہے کہ ظاہر و باطن کا علم رکھنے والے معصوم نبی جان بوجھ کر زہر کھا لے؟
اب مسلمانوں سے کچھ سوالات اور انتہائی آسان انداز میں ۔۔
1 – کیوں حضرت عائشہ اور وہ لوگ کہ جو وہاں پر موجود تھے انہوں نے رسول خدا کی بات پر عمل نہیں کیا، اور ان کے منع کرنے کے با وجود زبردستی ان کے منہ میں دوا ڈالی ؟
کیا خداوند نے قرآن میں نہیں فرمایا کہ: وَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ و َما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا. جو حکم بھی رسول خدا تم کو دیں، اسکی اطاعت کرو اور جس گناہ سے بھی تم کو منع کریں، اس کو چھوڑ دو اور خدا سے ڈرو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے۔ (سورہ حشر آیت 72)
2- کیوں حضرت عائشہ رسول خدا کو دوسرے عام مریضوں کی طرح سمجھ رہی تھی ؟
کیا خداوند نے خود نہیں فرمایا کہ: وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهْوَي . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْي يُوحَي . وہ ہر گز ہوا و ہوس کی وجہ سے بات نہیں کرتا بلکہ وہ جو بھی کہتا ہے فقط وحی کی وجہ سے کہتا ہے (سورہ نجم آیت 3)
3- کیوں حضرت عائشہ نے سوچا کہ ہر مریض حتی رسول خدا دوائی کھانے کو پسند نہیں کرتے ؟
4- کیا رسول خدا کی عقل ان بندوں سے بھی کم تھی کہ جو اس وقت رسول خدا کے کمرے میں موجود تھے، اور رسول خدا کو اتنا بھی نہیں پتا تھا کہ کونسی چیز ان کے لیے مفید ہے اور کونسی مفید نہیں ہے؟
5- کیا ان لوگوں کا بھی مقصد ان لوگوں کی باتوں کو تکرار کرنا تھا کہ جہنوں نے رسول خدا کے قلم اور دوات مانگنے پر ہذیان کی نسبت ان کی طرف دی تھی ؟ البتہ انھوں نے اپنی زبان سے ہذیان کا نہیں کہا بلکہ اپنے ہاتھوں سے منع کرنے کے با وجود دوائی پلا دی۔
وہ دوائی تھی یا کوئی اور چیز تھی، اس کو فقط خداوند ہی جانتا ہے!!!اور سب سے عجیب یہ ہے کہ نقل ہوا ہے کہ:
جب رسول خدا ہوش میں آئے تو انھوں نے حکم دیا کہ جہنوں نے زبردستی مجھے دوائی پلائی ہے، اسی دوائی کو ان سب کو بھی میرے سامنے پلائی جائے، غیر از ان کے چچا عباس کو کہ وہاں پر اس وقت موجود نہیں تھے!!! کیوں رسول خدا ان کے ساتھ بھی وہ کام کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟
انہی خائن اور منافق مسلمانوں کے لیے خداوند نے قرآن میں فرمایا ہے کہ:
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَعَنَهُـمُ اللّـٰهُ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَـهُـمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا اور آخرت میں “لا نت” کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کیا ہے (سورہ احزاب آیت 57)
آہ یا مظلوم رسول اللہ ۔۔ خدا کا غضب ہو ان پر جنہوں نے آپ کو شہید کیا
شریکِ غم #ابوعبداللہ