سوال : قبلہ اہل سنت کتابوں سے یہ بتائیں کہ کیا امام حسنؑ کو رسول اللہ کے ساتھ دفن ہونے سے عائشہ نے روکا تھا ؟ اور اس پر بھی روشنی ڈالیں کہ امام حسنؑ کے جنازے پر پہلا تیر کس نے پھینکا اور کس نے جنازے پر تیر چلانے کا حکم دیا تھا؟
جواب:
سلام، خدا کا غضب ہو ان منافقین پر جنہوں نے سبط رسول امام حسن مجتبیٰ (ع) کی شہادت کے بعد ان کے جنازے پر اتنے تیر برسائے کہ بقیع میں تدفین سے پہلے تابوتِ حسن سے ستر (70) تیر نکالے گئے ۔۔ اللہ اکبر ۔۔
اس سوال کے جواب میں تو پورا مقالہ لکھنا پڑ جائے گا تو مختصر یہ کہ
بے شک آقا حسن علیہ السلام کو اپنے نانا رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفن ہونے سے ابوبکر کی بیٹی عائشہ نے ہی روکا تھا جس پر کچھ اہل سنت روایات ملاحظہ فرمائیں:
اہل سنت کے امام ابن عبد البر القرطبی جو کہ حافظِ مغرب کے لقب سے مشہور ہیں، جنہوں نے الاستیعاب اور التمہید نامی اہل سنت فقہ پر ایسی کتاب لکھی جس پر اہل سنت عالم امام ابن حزم کہتا ہے کہ میرے علم میں فقہ حدیث پر اس جیسی کوئی کتاب نہیں، تو اس سے اچھی کیا ہو گی۔
یہی جید اہل سنت عالم اپنی کتاب بهجة المَجالس وانس المجالس وشحذ الذاهن والهاجس جو کہ المجالس کے نام سے مشہور ہے اس کے باب الأجوبة المسكتة وحسن البديهة کے صفحہ 16 پر لکھتے ہیں :
لما مات الحسن أرادوا أن يدفنوه في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأبت ذلك عائشة وركبت بغلة وجمعت الناس، فقال لها ابن عباس: كأنك أردت أن يقال: يوم البغلة كما قيل يوم الجمل؟! قالت: رحمك الله، ذاك يوم نسي. قال: لا يوم أذكر منه على الدهر
ترجمہ : جب حسن شہید ہو گئے تو انھوں (امام حسینؑ) نے چاہا کہ ان کو رسول اللہ کے گھر میں دفن کریں تو عائشہ نے اس کام سے انکار کرتے ہوئے، منع کیا اور ایک خچر پر سوار ہو کر لوگوں کو اکٹھا کر لیا۔
ابن عباس نے اس سے کہا: (تم وہی کرنا چاہتی جو جنگ جمل میں کر چکی ہو) کیا تم چاہتی ہو کہ لوگ کہیں، خچر کا دن، جیسا کہ کہا گيا تھا جمل کا دن؟ (یعنی اے عائشہ تم اپنے کام سے آج بھی وہی جنگ جمل والا فتنہ مسلمانوں میں برپا کر کے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا چاہتی ہو)
اس پر عائشہ نے جواب دیا : خدا تم پر رحم کرے، میں وہ دن بھول چکی پھر کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جسے میں ہمیشہ یاد رکھوں۔
حوالہ :
كتاب بهجة المجالس وأنس المجالس، باب من الأجوبة المسكتة وحسن البديهة، ص 16 (المكتبة الشاملة الحديثة)
اسی طرح اہل سنت کے ایک اور امام بلاذری نے اپنی کتاب أنساب الأشراف للبلاذري میں اور اسی روایت کے حاشیہ میں ابن ابی الحدید کی شرح المختار کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ عائشہ نے امام حسن (ع) کے جنازے پر کہا:
البيت بيتي ولا آذن أن يدفن فيه أحد
ترجمہ : یہ گھر میرا ہے اور میں کسی کو یہاں پر دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
حوالہ جات :
كتاب أنساب الأشراف للبلاذري، باب وفاة الحسن بن علي عليه السلام، جلد 3، ص 61
شرح المختار، من الباب الثاني من نهج البلاغة: ج ١٦ ص ١٣
اسی طرح یعقوبی نے اپنی تاریخ میں عائشہ اور اس بھتیجے قاسم ابن محمد بن ابی بکر کا مکالمہ نقل کیا ہے جو اس طرح سے ہے:
و قيل إن عائشة ركبت بغلة شهباء، و قالت: بيتي لا آذن فيه لأحد. فأتاها القاسم بن محمد بن أبي بكر، فقال لها: يا عمة! ما غسلنا رءوسنا من يوم الجمل الأحمر، أ تريدين أن يقال يوم البغلة الشهباء؟
ترجمہ: عائشہ سرمئی رنگ کے خچر پر سوار ہو کر آئی اور کہا: یہ میرا گھر ہے اور میں کسی کو بھی یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتی، قاسم ابن محمد ابن أبی بكر آگے بڑھا اور کہا:
اے پھوپھی، ابھی تک تو ہم نے اپنے سروں کو جنگ جمل کے بعد غسل بھی نہیں دیا تو کیا تم چاہتی ہو کہ اب لوگ کہیں کہ سرمئی خچر کا دن ؟
حوالہ :
تاريخ اليعقوبي، جلد 2، صفحہ 225
تو ثابت ہوا کہ عائشہ ہی نے امام حسن (ع) کو رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفن ہونے نہیں دیا تھا ۔
اب رہا یہ سوال کہ کس نے تیر اندازی کی تو اس پر جواب یہ ہے کہ علامہ طبرسی نے اسرار الامامة میں اور بحر المعارف میں ہمدانی نے نقل کیا ہے:
وأستدعت عائشة من مروان قوساً وسهماً ورمت بالنشاب إلى جنازته ع الامام الحسن ثم رشـق عـسـكر الشام
ترجمہ : اور عائشہ نے مروان سے کمان و تیر منگوائے اور امام حسن (ع) کے جنازے پر تیر پھینکے، پھر شامی لشکر نے تیر اندازی شروع کی۔
شیخ کلینی (رح) نے بھی اصول کافی میں اس واقعہ کی مفصل روایت نقل کی ہے جو اس کی پہلی جلد میں مل جائی گی۔
والسلام #ابوعبداللہ