سلام، بالکل ثابت کئے دیتے ہیں، تو شروع آیت ولایت سے کرتے ہیں.
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ
المائدة : 55
ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں.
اہل سنت کے بزرگ آئمہ نے مجاہد سے یہ روایت نقل کی ہے کہ
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، نَزَلَتْ فِي عَلي بن أبي طالب تَصَدَّقَ وَهُوَ راكِعٌ.
جس وقت علی ابن ابی طالب حالت رکوع میں تھے اور آپ نے حالت رکوع میں صدقہ دیا تو یہ آیت آپ کی شان میں نازل ہوئی.
حوالہ : تفسير طبری، ج 6 ص 390
اسی طرح ابن ابی حاتم و عتبہ بن ابی حکيم نے اسی مطالب کو نقل کیا ہے.
حوالہ : تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162
شیعوں کے بغض میں نمایاں اہل سنت امام ابن تيميہ بھی ان دونوں تفاسیر کے بارے میں کہتا ہے :
تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في
تفسير طبری اور ابن ابی حاتم کی تفاسیر ایسی تفاسیر میں سے ہیں جن میں ایسی احادیث اور باتیں موجود ہیں جن پر قرآن کی تفسیر کے لئے اعتماد کیا جاسکتا ہے.
آلوسی سلفی بھی لکھتا ہے :
وغالب الأخباريّين على أنّ هذه الآية نزلت في علي
اکثر اخباریوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے نازل ہوئی ہے.
حوالہ : تفسير روح المعاني ج6ص167
اسی طرح آلوسی کہتا ہے..
والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي
اکثر محدثین کا یہ نظریہ ہے کہ آیت، على ابن ابی طالب کے بارے نازل ہوئی ہے.
حوالہ : تفسير روح المعاني ج6ص186
تو آیت ولایت سے ثابت ہوا کہ نبی کریم کے فوراً بعد جس کی ولایت ہے وہ امير المؤمنين علی علیہ السلام ہیں.
اب آیت ابلاغ کی جانب بڑھتے ہیں..
سورہ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
المائدة: 67.
اے رسول ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا.
اہل سنت کے بڑے عالم امام ابن ابی حاتم نے ابو سعيد خدری سے نقل کیا ہے :
نزلت هذه الآية . . . في علي بن أبي طالب
یہ آيت ابلاغ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے.
حوالہ : تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172
امام آلوسی جو کہ اہل سنت کا ایک اور بڑے عالم ہے وہ عبد اللہ ابن مسعود کی یہ روایت نقل کرتا ہے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں اس آیت کی اس طرح سے تلاوت کرتے تھے :
بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ
یہ جو چیز آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی ہے “علی مومنوں کے ولی ہیں ” اس کو لوگوں تک پہنچائے اگر ایسا نہیں کیا تو گویا آپ نے رسالت کے کام کو نہیں پہنچایا.
حوالہ : تفسیر روح المعاني ج6 ص193
اسی طرح دیگر آئمہ اہل سنت جن میں سيوطی ،شوكانی ، محمد رشيد رضا وغیرہ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے.
حوالہ جات :
الدر المنثور ج 2، ص 298
فتح القدير ج 2، ص 60
والمنار: ج 6، ص 463
اب آیت اکمال الدین سے آخری قرآنی استدلال..
مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِسْلاَمَ دِيناً
المائدة: 3
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے.
خطيب بغدادی کہ جسے اہل سنت محدثین نے حافظ المشرق اور خطیب کے نام سے بھی پکارا ہے. امام ابن الاثیر نے خطیب بغدادی کو اِمامُ الدنیا فی زَمانہ کے لقب سے یاد کیا ہے. اور امام ذہبی متوفی نے خطیب بغدادی کو اِن القابات سے یاد فرمایا ہے : الاِمام الاَوْحَد، العَلاَّمۃ المفتی، الحَافظ الناقد، محدث الوقت.
اسی خطیب بغدادی نے ابوهريره سے نقل کیا ہے کہ
غدير خم کے دن رسول اللہ (ص) نے على ابن ابی طالب (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا :
أَلَسْتُ وَلِيَّ المُؤْمِنِين؟ کیا میں مومنوں کے ولی اور ان کا سرپرست نہیں ہوں؟ سب نے کہا جی ہاں یا رسول اللہ !
اس وقت آپ نے فرمایا : مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں. اس کے بعد عمر بن خطاب نے کہا : اے ابو طالب کے بیٹے مبارک ہو ، آپ میرے اور سارے مسلمانوں کے ولی بن گئے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی “آج آپ کے دین کو ہم نے کامل کیا” (اس روایت کی سند معتبر ہے )
حوالہ : تاريخ بغداد ج8 ص284
امام ابن کثير کی نقل کردہ روایت کے مطابق عمر بن خطاب نے کہا :
أَصْبَحْتَ الْيَومَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ
يا على ! آج کے بعد آپ تمام مومنوں کے ولی بن گئے.
حوالہ : البداية والنهاية ج 7 ص350
اب کچھ اہل سنت احادیث بھی ملاحظہ فرمائیں..
اہل سنت کا وہابی عالم امام البانی لکھتا ہے کہ پیغمبر اکرم نے امام علی سے فرمایا :
لَا يَنْبَغِي اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي
سزاوار نہیں ہے کہ میں جاؤں مگر یہ کہ آپ میرے جانشین ہو.
البانی کہتا ہے کہ حاکم اور ذہبی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور جس طرح سے ان دونوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، یہ صحیح ہے.
حوالہ : سلسلة الصحيحة ج 5 ص263
امام حاكم نيشاپوری لکھتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا :
إنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي
علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ، علی میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔
یہ روایت مسلم کی شراط کے مطابق صحیح ہے اسی طرح ذہبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا یے .
حوالہ : مستدرک، ج 3 ص 110
اسی طرح مناقب خوارزمی میں موجود ہے
رسول اللہ (ص) نے امام علی (ع) سے فرمایا
أَنْتَ إِمَامُ كُلِّ مُؤْمنٍ وَمُؤْمِنَةٍ
آپ تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے امام ہیں.
حوالہ : مناقب خوارزمی، ص 61
خود عمر بن خطاب سے ایک صحیح روایت موجود ہے جس میں ابن عباس سے خطاب ہے کہ
إنَّ أَحْراهُمْ إنْ وَلِيَهَا أَنْ يَحْمِلَهُمْ عَلَى كِتَابِ اللّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَاحِبُكَ، يَعِنِي عَلِيّاً.
جو شخص مسلمان کو قرآن اور سنت کے مطابق عمل کرانے کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور اہلیت رکھتا ہے ، وہ آپ کے دوست علی ابن ابی طالب ہیں.
حوالہ : ابن شُبّه نُمَيري تاريخ المدينة المنورة ، ج 3 ص 883
انساب الاشراف اور مصنف میں موجود ہے :
لَوْ بَايَعُوا عَلِيّاً لَأَكَلُوا مِنْ فَوقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ
اگر علی کی بیعت کرتے تو آسمان اور زمین کی برکتوں سے استفادہ کرتے.
حوالہ جات :
أنساب الأشراف ج 2 ص 274
مصنف ابن أبي شيبة ج 7 ص 443
حسکانی بھی شواهد میں نقل کرتا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ (ص) کو حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے ولی بنانے کا حکم دیا تو نبی اکرم نے فرمایا :
يَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِي قَرِيبُوا عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيِّةِ وَفِيهِمْ تَنَافُسٌ وِفَخْرٌ ، وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ اِلَّا وقد وتره وليهم…
اے اللہ (قريش کہ جو عصر جاہلیت کے نزدیک ہے یعنی تازہ مسلمان ہوا ہے اور اسلام ابھی ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا ہے اور یہ لوگ رقابت اور غرور و تکبر کی ذہنیت کے مالک ہیں ، مجھے اس چیز کا خوف ہے کہ کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے قریبی رشتہ دار علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس وقت جيرئيل سوره مائده کی آيه 67 لے کر نازل ہوئے اور یہ پیغام دیا ہے آپ ولایت علی علیہ السلام لوگوں تک پہنچائے (وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ) اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا.
شواهد التنزيل ج 1 ص 254
المختصر کہ قرآن و سنت سے خود اہل سنت منابع میں امیر کائنات جنابِ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل پر بین نصوص موجود ہیں.
والسلام #ابوعبداللہ