بسم اللہ الرحمن الرحیم..
السلام علیکم، لبیک یا حُسین (ع)
اپنی تحریر کا آغاز زیارت عاشورا کے ان جملوں سے جس کی تکرار کیے بغیر کوئی مومن مسلمان کجا انسان تک کہلانے کے لائق نہیں..
اَللّـهُمَّ خُصَّ اَنْتَ اَوَّلَ ظالِم بِاللَّعْنِ مِنّي وَابْدَأْ بِهِ اَوَّلاً ثُمَّ (الْعَنِ) الثّانيَ وَالثّالِثَ وَالرّابِعَ اَللّـهُمَّ الْعَنْ َيَزيدَ خامِساً وَالْعَنْ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ زِياد وَابْنَ مَرْجانَةَ وَعُمَرَ بْنَ سَعْد وَشِمْراً وَآلَ اَبي سُفْيانَ وَآلَ زِياد وَآلَ مَرْوانَ اِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ.
اس پر پہلے ہی معذرت قبول فرمائیں کہ یہ تحریر کافی طویل ہونے جا رہی ہے کیونکہ شجرہ ملعونين کی جانب سے ایک بار پھر دشمنِ اسلام، دشمنِ رسول اور آل رسول، جگر خور ہندہ کی ناجائز اولاد لعینِ شام معاویہ بن ابوسفیان کی وکالت اور اسے آل رسول کے مقابلے میں لا کر محترم پیش کرنے کی ناکام کوششوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ اب اس کا اصل چہرہ ایسا بےنقاب کروں کہ دورِ حاضر میں اس کی ناجائز اولادیں اس کی دفاع میں آنے سے پہلے سو بار سوچیں..
تمہید کو مختصر کرتے ہوئے میں عوام الناس کو اس تحریر کے متعلق پہلے کچھ گزارشات پیش کر دوں کہ میں کیسے اس تحریر کو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں..
میں اس تحریر کو کچھ حصوں میں تقسیم کر رہا ہوں جو اس طرح ہے.
– معاویہ کا مشکوک شجرہ کتب اہل سنت سے
– معاویہ پر رسول اللہ کی لعنت اور رسول کا اسے قتل کرنے کا حکم
– معاویہ کا کاتبِ وحی ہونے کا تحقیقی آپریشن
– معاویہ کا قتلِ عثمان اور قتلِ ام المومنین میں کردار
– معاویہ کا خلیفۃ المسلمین امام العالمین علی ابن ابی طالب کو گالی دینا اور منبروں سے گالیاں دلوانا
– معاویہ کا حکومت حاصل کرنے کے لیے 70 ہزار اصحاب کو قتل کرنا
– معاویہ کا سبطِ رسول حضرت امام حسن کو زہر سے شہید کرنا
– معاویہ کی سنتوں پر اصحاب رسول کا برتاؤ
تو بنا کسی مزید تمہید کے اب براہ راست عنوان کے متعلق اہل سنت کتابوں سے حوالے..
” معاویہ کا مشکوک شجرہ کتب اہل سنت سے ”
• معاویہ کے چار باپ ہونے کے متعلق امامِ اہل سنت زمخشری لکھتے ہیں :
و كان معاویة يعزي الي أربعة: إلي مسافر بن أبی عمرو و إلي عمارة بن الولید و إلي العباس بن عبدالمطلب و إلي الصباح مغن أسود كان لعمارة. قالوا: كان أبو سفيان دميماً قصيراً، وكان للصباح عسيفاً لأبي سفيان شاباً وسيماً، فدعته هند إلى نفسها.
معاویہ کی نسبت چار افراد کی طرف دی جاتی ہے (یعنی ان چار افراد میں سے کوئی ایک ان کا باپ ہے) مسافر بن ابی عمرو کی طرف، عمارہ بن ولید بن مغیرہ مخزومی کی طرف، عباس بن عبدالمطلب کی طرف اور صباح کی طرف۔
صباح ایک گانے والا سیاہ فام غلام تھا جس کا تعلق عمارہ بن ولید سے تھا۔ علماء نے کہا ہے: ابوسفیان بدصورت اور چھوٹے قد کا تھا اور صباح ابو سفیان کا خادم تھا، ابوسفیان نے اسے اپنی خدمت کے لئے رکھ رکھا تھا. وہ ایک خوبصورت جوان تھا، ابوسفیان کی زوجہ ہندہ نے اسے اپنے ساتھ ناجائز فعل کے لئے اکسایا۔ (اس بدفعلی کے نتیجے میں معاویہ پیدا ہوا)
حوالہ : ربيع الأبرار، جلد 4، صفحہ 274- 275
“معاویہ پر رسول اللہ کی لعنت اور رسول کا اسے قتل کرنے کا حکم”
• امام ہیثمی کتاب مجمع الزوائد میں عمار یاسر سے معاویہ کے بارے میں روایت نقل کرتے ہیں :
والله ما أسلموا ولکن استسلموا وأسروا الکفر فلما رأو علیه أعوانا أظهروه،
خدا کی قسم معاویہ اور اسکے ساتھی بالکل اسلام نہیں لائے تھے، وہ ظاہری طور پر اسلام کا نام لیتے تھے اور اپنے کفر کو مخفی طور پر چھپاتے تھے اور جب اس نے اپنے مددگاروں کو پا لیا ہے تو انھوں نے اپنے باطنی کفر کو اسلام کے خلاف ظاہر کر دیا ہے.
حوالہ : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی – القاهرة, بیروت – 1407، جلد 1، صفحہ 113، باب منه فی المنافقین
• امام طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری میں نقل کیا ہے:
وقد رآه مقبلا علی حمار ومعاویة یقود به ویزید ابنه یسوق به،
ابو سفیان گدھے پر سوار تھا، معاویہ نے اسکی لگام پکڑی ہوئی تھی اور ابو سفیان کا بیٹا یزید گدھے کو پیچھے سے ہانک رہا تھا۔
طبری نے اس مطلب کو نقل کرنے کے بعد رسول خدا کے قول کو نقل کیا ہے کہ:
لعن الله القائد والراکب والسائق،
اللہ اسکو کہ جو گدھے پر سوار ہے، اور اسکو کہ جو گدھے کے آگے ہے اور اسکو کہ جو گدھے کے پیچھے ہے، لعنت کرے.
(یعنی رسول خدا نے تینوں پر لعنت کی ہے)
تاریخ الطبری، اسم المؤلف: لأبی جعفر محمد بن جریر الطبری، جلد 5، صفحہ 622، باب ذکر الخبر عما کان فیها من الأحداث الجلیلة
• اسی طرح اہل سنت کی معتبر کتاب المختصر فی أخبار البشر میں ابو الفداء نے اسی روایت کو ذکر کیا ہے:
أبا سفیان مقبلاً ومعاویة یقوده، ویزید أخو معاویة یسوق به، فقال: ” لعن الله القائد والراکب والسائق “
المختصر فی أخبار البشر، المؤلف: أبو الفداء عماد الدین إسماعیل بن علی جلد 2، صفحہ 57، باب خلافة أبی العباس
• کتاب مسائل امام احمد بن حنبل میں اسحاق ابن ابراہیم نیشاپوری سے روایت نقل ہوئی ہے کہ:
سمعت علی بن جعد یقول مات والله معاویة علی غیر الاسلام،
میں نے علی ابن جعد کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ: خدا کی قسم معاویہ کی موت دین اسلام پر واقع نہیں ہوئی، یعنی وہ مسلمان دنیا سے رخصت نہیں ہوا۔
• اسی طرح کتاب انساب الاشراف بلاذری میں یہ روایت ذکر ہوئی ہے اور اسی روایت کو 50 سے زیادہ اہل سنت کے علماء نے نقل کیا ہے:
کنْتُ عِنْدَ النَّبِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یطْلُعُ عَلَیکمْ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ یمُوتُ عَلَی غَیرِ مِلَّتِی،
صحابہ کہتے ہیں کہ ہم رسول خدا کے پاس تھے کہ انھوں نے فرمایا: ابھی اس دروازے سے ایک شخص داخل ہو گا کہ جو میرے مذہب پر نہیں مرے گا۔
قَالَ: وَکنْتُ تَرَکتُ أَبِی قَدْ وُضِعَ لَهُ وَضُوءٌ، فَکنْتُ کحَابِسِ الْبَوْلِ مَخَافَةَ أَنْ یجِیءَ،
راوی کہتا ہے کہ: میرے والد وضو کرنے کے لیے چلے گئے، مجھے خود بھی بیت الخلاء جانے کی اشد ضرورت تھی، لیکن پھر بھی اس شخص کو دیکھنے کے لیے میں نے خود کو وہیں روکے رکھا۔
قَالَ: فَطَلَعَ مُعَاوِیةُ فَقَالَ النَّبِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: هُوَ هَذَا،
راوی کہتا ہے کہ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ اس دروازے سے معاویہ داخل ہوا ہے، اسکو دیکھتے ہی رسول خدا نے فرمایا کہ: جس شخص کے بارے میں، میں نے کہا تھا کہ وہ مسلمان دنیا سے نہیں مرے گا، وہ یہی شخص ہے۔
(یعنی معاویہ مسلمان نہیں بلکہ کافر دنیا سے جائے گا)
حوالہ : أنساب الأشراف، المؤلف: أحمد بن یحیی بن جابر بن داود البَلَاذُری، تحقیق: سهیل زکار وریاض الزرکلی، جلد 5، صفحہ 126، حدیث 362
امام ہیثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
رواه البزار ورجاله ثقات،
حوالہ : مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، 1407، جلد 1، صفحہ 113، باب منه فی المنافقین
• اسی طرح طبرانی نے کتاب معجم الکبیر میں بھی انہی الفاظ کو ذکر کیا ہے:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللَّهُ علیه وسلم قال لَعَنَ اللَّهُ السَّائِقَ وَالرَّاکبَ أَحَدُهُمَا فُلانٌ قَالا اللَّهُمَّ نعم،
المعجم الکبیر، اسم المؤلف: سلیمان بن أحمد بن أیوب أبو القاسم الطبرانی، دار النشر: مکتبة الزهراء – الموصل – 1404 – 1983، الطبعة: الثانیة، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، جلد 3، صفحہ 71، حدیث 2698
• امام بلاذری، انساب الاشراف میں لکھتے ہیں :
عن الحسن قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا رأيتم معاوية على منبري فاقتلوه؛ فتركوا أمره فلم يفلحوا ولم ينجحوا.
حسن بصری نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا:
اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو فوراً اسے قتل کردینا۔ لوگوں نے آپ کے حکم پر عمل نہیں کیا اسی لئے نہ فلاح پائی نہ کامیاب نہیں ہوئے۔
• امام بلاذری ایسی ہی دوسری حدیث عبداللہ ابن مسعود سے روایت کرتے کہ
عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا رأيتم معاوية بن أبي سفيان يخطب على المنبر فاضربوا عنقه.
عبداللہ ابن مسعود نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے ارشاد فرمایا:
جب دیکھو کہ معاویہ میرے منبر بیٹھا ہے اور خطبہ پڑھ رہا ہے تو اس کی گردن ماردو.
• اب دیکھیں امام بلاذری ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں جس میں معاویہ کے جہنمی ہونے پر رسول کی تصدیق ہے. ملاحظہ فرمائیں
عن سالم بن أبي الجعد قال، قال رسول الله صلی الله علیه وسلم :
معاوية في تابوت مقفل عليه في جهنم.
سالم بن ابی جعد نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: معاویہ جہنم میں ایک بند تابوت کے اندر ہو گا ۔
حوالہ جات : أنساب الأشراف، جلد 5، صفحہ136، 137
• اہل سنت کے بزرگ مؤرخ امام طبری نے بھی لکھا ہے کہ:
إن معاویة فی تابوت من نار فی أسفل درک،
معاویہ آگ کے تابوت میں جہنم کے سب سے نیچے والے درجے میں ہے۔
حوالہ : تاریخ الطبری، اسم المؤلف: لأبی جعفر محمد بن جریر الطبری، ج 5، ص 622، باب ذکر الخبر عما کان فیها من الأحداث الجلیلة
• علی ابن جعد کہ جو ثقہ ہے، اس نے لکھا ہے کہ:
ما ضرنی أن یعذب الله معاویة ،
مجھے کسی قسم کا کوئی ضرر نہیں ہے کہ میں قائل ہوں کہ اللہ معاویہ کو عذاب کرنے والا ہے۔
حوالہ : سؤالات أبی عبید الآجری أبا داود السجستانی، سلیمان بن الأشعث أبو داود السجستانی، مکان النشر المدینة المنورة، ج 1، ص 254، ش 338
( نوٹ: معاویہ پر رسول اللہ کی لعنت پر مزید حوالے بھی دے سکتا ہوں لیکن تحریر کی طوالت کے باعث اسی پر اکتفا کر کے آگے بڑھ رہا ہوں.)
“معاویہ کا کاتبِ وحی ہونے کا تحقیقی آپریشن”
اول تو اب معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر بحث کرنا ہی فضول محسوس ہوتا ہے کیونکہ اوپر جو رسول اللہ کی معاویہ پر لعنت اور اس کے کفر پر مرنے کا بیان سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ ایسے شخص جس پر رسول لعنت کریں وہ کاتب وحی ہو.. چلیں پھر بھی کچھ تحقیق کے نشتروں سے اس کے ماننے والوں کو زخمی کرتے ہیں..
• اہل سنت کی کتب میں ان کے لیے قابل قبول روایت کہ جو معاویہ کے کاتب وحی ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہے، وہ روایت ہے کہ جو مسلم بن حجاج نيشابوری نے اپنی کتاب صحيح مسلم میں ذکر کی ہے: ملاحظہ فرمائیں
حدثنی عَبَّاسُ بن عبد الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَ أَحْمَدُ بن جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ قالا حدثنا النَّضْرُ و هو بن مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ حدثنا عِكْرِمَةُ حدثنا أبو زُمَيْلٍ حدثني بن عَبَّاسٍ قال كان الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إلي أبي سُفْيَانَ و لا يُقَاعِدُونَهُ فقال لِلنَّبِيِّ صلي الله عليه و سلم يا نَبِيَّ اللَّهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ قال نعم قال عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَ أَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أبي سُفْيَانَ ازوجكها قال نعم قال وَ مُعَاوِيَةُ تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بين يَدَيْكَ قال نعم قال وَ تُؤَمِّرُنِي حتي أُ قَاتِلَ الْكُفَّارَ كما كنت أُ قَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ قال نعم قال أبو زُمَيْلٍ وَ لَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذلك من النبي صلي الله عليه و سلم ما أَعْطَاهُ ذلك لِأَنَّهُ لم يَكُنْ يُسْأَلُ شيئا إلا قال نعم .
ابن عباس نے کہا ہے کہ: مسلمان ابو سفیان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے اور اسکے ساتھ بیٹھنے کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس نے رسول خدا (ص) سے کہا کہ میری تین درخواستیں ہیں اور آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان کو مجھے عنایت کر دیں۔ رسول خدا نے بھی اس بات کو قبول کر لیا:
1- عرب کی نیک ترین اور خوبصورت ترین بیٹی، ام حبیبہ میرے پاس ہے، میں اسکی شادی آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔
2- معاویہ کاتب وحی بن جائے۔
3- مجھے لشکر اسلام کا سپہ سالار بنائیں تا کہ کفار سے ویسے ہی جنگ کروں، جس طرح کہ میں مسلمانوں سے جنگ کیا کرتا تھا۔
رسول خدا نے سب کو قبول کر لیا۔
ابو زمیل نے کہا ہے کہ: اگر ابو سفیان ان تین درخواستوں کو رسول خدا سے طلب نہ کرتا تو، وہ کبھی بھی پوری نہ ہوتیں، کیونکہ رسول خدا (ص) کسی کی بھی درخواست کو درّ نہیں کرتے تھے۔
حوالہ: صحيح مسلم، جلد 4 صفحہ 1945 ، حدیث 2501، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ، 40 بَاب من فَضَائِلِ أبی سُفْيَانَ بن حَرْبٍ، تحقيق، محمد فؤاد عبد الباقی ، ناشر : دار إحياء التراث العرب، بيروت
چلیں اب اس حدیث کے جعلی اور بے بنیاد ہونے پر خود علماء اہل سنت کی رائے پیش کیے دیتا ہوں.
• امام نووی (متوفی 676) نے اس روایت کی شرح میں لکھا:
و اعلم أن هذا الحديث من الاحاديث المشهورة بالاشكال و وجه الاشكال أن أبا سفيان إنّما أسلم يوم فتح مكة سنة ثمان من الهجرة و هذا مشهور لا خلاف فيه و كان النبي صلي الله عليه و سلم قد تزّوج أم حبيبة قبل ذلك بزمان طويل.
قال أبو عبيدة و خليفة بن خياط و إبن البرقي و الجمهور: تزّوجها سنة ست و قيل سنة سبع …
قال القاضي: و الذي في مسلم هنا أنّه زوّجها أبو سفيان غريب جدّاً و خبرها مع أبي سفيان حين ورد المدينة في حال كفره مشهور و لم يزد القاضي علي هذا .
و قال ابن حزم هذا الحديث و هم من بعض الرواة ؛ لأنّه لا خلاف بين الناس أنّ النبي صلي الله عليه و سلم تزّوج أم حبيبة قبل الفتح بدهر و هي بأرض الحبشة و أبوها كافر و في رواية عن ابن حزم أيضاً أنّه قال: موضوع. قال: و الآفة فيه من عِكْرِمَة بن عمار الراوي عن أبي زميل …
یہ احادیث میں سے وہ حدیث ہے کہ جس میں جو اشکال ہے، وہ معروف اور مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ ابو سفیان بغیر کسی شک کے سال ہشتم ہجری میں فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا،اور رسول خدا نے فتح مکہ سے بہت عرصہ پہلے ام حبیبہ سے شادی کر لی تھی، ابو عبیدہ اور دوسروں بلکہ سب کا اس قول پر اتفاق ہے کہ یہ شادی 6 یا 7 ہجری کو ہو گئی تھی۔ لہذا مسلم کی یہ روایت قابل تعجب ہے، کیونکہ ابو سفیان کفر کی حالت میں، شہر مدینہ میں داخل ہوا تھا اور یہ بات معروف اور مشہور ہے۔
ابن حزم نے کہا ہے کہ: بعض راویوں کا اس روایت کو نقل کرنا، خطا اور غلط ہے، کیونکہ اس بات میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ رسول خدا نے فتح مکہ سے پہلے ام حبیبہ سے اس حالت میں کہ اسکا باپ کافر تھا، شادی کر لی تھی۔
ابن حزم سے ایک دوسری روایت نقل ہوئی ہے کہ اس نے کہا ہے کہ: یہ حدیث جھوٹی اور جعلی ہے، اسلیے کہ عکرمہ ابن عمار نے اس روایت کو ابو زمیل سے نقل کیا ہے….
حوالہ : النووی ، أبو زكريا يحيی بن شرف بن مری ، شرح النووی علی صحيح مسلم ، جلد 16 ، صفحہ 63 ، ناشر : دار إحياء التراث العربی، بيروت، الطبعة الثانية ، 1392 هـ،
• امام شمس الدين ذہبی نے اپنی کتاب ميزان الإعتدال ميں اس حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
و فی صحيح مسلم قد ساق له أصلا منكرا عن سماك الحنفی عن ابن عباس فی الثلاثة التی طلبها أبو سفيان و ثلاثة أحاديث أخر بالإسناد،
صحیح مسلم میں یہ حدیث اور دوسری تین حدیثیں، منکرات میں سے ہیں کہ جو اس کتاب میں نقل ہوئی ہیں۔
حوالہ: الذهبی، ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، جلد 5، صفحہ 116، تحقيق: الشيخ علی محمد معوض و الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولی، 1995م،
اب آخر میں اس حدیث کے جھوٹا اور جعلی ہونے پر ایک اور حوالہ دے کر آگے بڑھتا ہوں..
• امام ابن ملقن شافعی نے بھی اس روایت پر اشکال کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
هذا من الأحاديث المشهورة بالإشكال المعروفة بالإعضال، و وجه الإشكال : أنّ أبا سفيان إنّما أسلم يوم الفتح، و الفتح سنة ثمان، و النبی كان قد تزّوجها قبل ذلك بزمن طويل۔ قَالَ خليفة بن خياط : و المشهور علی أنّه تزّوجها سنة ست، و دخل بها سنة سبع، و قيل: تزّوجها سنة سبع، و قيل: سنة خمس۔
اس حدیث میں جو اشکال ہے، وہ بہت معروف اور برا ہے، کیونکہ ابو سفیان سال ہشتم ہجری فتح مکہ والے دن مسلمان ہوا تھا اور رسول خدا نے اس بہت عرصہ پہلے سال ششم ہجری میں، ام حبیبہ سے شادی کر لی تھی، لیکن شادی کے بعد اسکو سال ہفتم ہجری میں اپنے گھر لے کر آئے تھے، اگرچے بعض نے شادی والے سال کو سال 7 یا 5 ہجری بھی نقل کیا ہے۔
حوالہ : الأنصاری الشافعی، البدر المنير فی تخريج الأحاديث و الأثار الواقعة فی الشرح الكبير، جلد 6، صفحہ 731، تحقيق: مصطفی أبو الغيط و عبد الله بن سليمان و ياسر بن كمال، ناشر: دار الهجرة للنشر و التوزيع – الرياض-السعودية، الطبعة: الاولی
تو دیکھا آپ مومنین و مومنات نے کیسے صحیح مسلم میں دو نمبر طریقے سے معاویہ کے گلے میں کاتب وحی کی مالا ڈالنے کی کوشش کی گئی..
“معاویہ کا قتلِ عثمان اور قتلِ ام المومنین میں کردار”
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ : جب معاویہ، عثمان بن عفان سے ملنے آیا تو
عثمان نے کہا : اللہ تجھے رشتہ داری کی نعمت نہ دے اور تیری مدد نہ کرے ، تجھے جزاے خیر نہ دے، خدا کی قسم میں صرف تیری وجہ سے قتل کیا جاؤں گا اور تیری وجہ سے مجھ سے یہ انتقام لیا جا رہا ہے ۔
حوالہ : تاریخ الاسلام للذھبی : جلد 3، ص 450 ،
حضرت ابو ایوب انصاری کے بقول عثمان کا قاتل معاویہ بن ابوسفیان
کتاب الامامة والسیاسة میں معاویہ کو ابو ایوب کے خط میں ذکر ہوا ہے :
ہمیں عثمان کے قاتلوں سے کیا مطلب؟ جس نے عثمان کو منتظر اور شامیوں کو اس کی مدد کرنے سے باز رکھا ، وہ تو ہے اے معاویہ تو ہے ۔ جن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے وہ انصار کے افراد نہیں تھے۔
حوالے ملاحظہ فرمائیں:
الامامة والسیاسة : جلد 1، صفحہ 140
شرح نھج البلاغہ : جلد 8، صفحہ 44
تاریخ الخلفاء، الستیعاب اور اسد الغابہ میں ابو طفیل عامری بن واثلہ صحابی کے بارے میں آیا ہے کہ وہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا :
کیا تو عثمان کا قتل کرنے والوں میں سے نہیں ہے ؟ تو اس نے کہا : نہیں لیکن وہ لوگ ہیں جو مدینہ نے میں اس وقت موجود تھے اور اس کی مدد نہیں کی۔
معاویہ نے کہا : عثمان کی مدد کرنے کو کس چیز نے تجھے منع کیا ؟
تو اس نے کہا : اس وجہ نے کہ مھاجرین و انصار نے ان کی کوئی مدد نہیں کی
تو معاویہ نے کہا : آگاہ ہوجاؤ ان کی گردنوں پر اس کی نصرت کا حق واجب تھا
تو اس نے کہا : اے امیر تمہارے ساتھ تو خود شام کے لوگ موجود تھے پھر تم نے کیوں ان کی مدد نہیں کی ؟
معاویہ نے کہا : کیا میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے کھڑا ہو گیا ہوں یہ کافی نہیں ہے ؟
توابو طفیل نے مسکرانے کے بعد کہا :
تو اور عثمان شاعر کے اس شعر کی مانند ہو جس میں اس نے کہا :
لا ألفینکَ بَعد الموت تَندبُنُی ۔ وفی حَیاتی مازَوّدتَنی زاد
تجھے اپنی موت کے بعد گریہ کرتے ہوئے نہیں دیکھو گا
کیونکہ میری زندگی میں تو تم نے کوئی ساتھ نہیں دیا
حوالے ملاحظہ فرمائیں:
تاریخ الخلفاء : صفحہ 239
الاستیعاب : جلد 4 صفحہ 260، الرقم 3084
اُسد الغابہ : جلد 6، صفحہ 177، الرقم 6035
عثمان بن عفان کا قاتل بھی معاویہ.. اب آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ کو کس نے قتل کیا..
امام بلاذری اور امام خواند میر لکھتے ہیں :
في تاريخ حافظ ، روى الحاجبان عن ربيع الأبرار وكامل السفينة ، المذكور في شهر السنة والخمسين ،……
معاویہ مدینہ میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے منبر پر یزید کے لئے بیعت لینے میں مشغول تھا، کہ عائشہ نے اپنے کمرے سے آواز بلند کی:“ خاموش ھو جاؤ! خاموش ھوجاؤ! کیا یہی رسم ہے کہ بزرگ افراد اپنے بیٹے کے حق میں بیعت لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دیں؟ معاویہ نے جواب میں کہا: نہیں۔ عائشہ نے کہا: پس اس کام میں تم نے کس کی اقتداء کی ہے اور کس کی سنت کی پیروی کرتے ھو؟ معاویہ شرم کے مارے شرمندہ ھوکر منبر سے نیچے اترا اور ایک چاہ کھودا اور مکر و فریب سے عائشہ کو اس چاہ میں گرا دیا اور اسی وجہ سے عائشہ کی موت واقع ھوئی۔
حوالے ملاحظ فرمائیں :
غياث الدين بن همام الدين حسيني خواندمير، تاريخ حبيب السير، ج 1 ص 425 ، انتشارت خيام، بي جا، بي تا.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص 186 ، طبق برنامه الجامع الكبير
تو دیکھا آپ نے کہ جن ام المومنین کو یہ امی جان کہہ کہہ کر نہیں تھکتے انہی امی جان کا قاتل بھی ان کا کاتب وحی معاویہ بن ابوسفیان ہے.
” معاویہ کا خلیفۃ المسلمین امام العالمین علی ابن ابی طالب کو گالیاں دینا اور منبروں سے گالیاں دلوانا”
اس عنوان پر کچھ حوالے پیش کرنے سے پہلے میں اہل سنت کی کتابوں سے یہ ثابت کروں گا کہ امام علی علیہ السلام کو گالی دینا دراصل رسول اللہ (ص) کو گالی دینا ہے اور وہ بھی صحیح السند حدیث کی روشنی میں تاکہ معاویہ کے گن گانے والے جاہل ناصبی یہ جان لیں کہ معاویہ نے رسول اللہ کو گالیاں دیں اور دوسروں کو بھی اس عظیم گستاخی کا حکم دیا..
ملاحظہ فرمائیں..
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں، نسائی نے اپنی کتاب خصائص اميرمؤمنین میں اور ذہبی نے اپنی کتاب تاريخ الإسلام وغیرہ وغیرہ نے سند صحيح کے ساتھ نقل کیا ہے کہ، علی کو سبّ دینا، یہ خود رسول خدا کو سبّ دینا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِی۔
عبد اللہ جدلی نے کہا ہے کہ: میں ام سلمہ کے پاس گیا، تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا بندہ ہے کہ جو رسول خدا کو گالیاں دیتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نعوذ باللہ، اس پر ام سلمہ نے کہا کہ:
میں نے خود رسول خدا سے سنا ہے کہ: انھوں نے فرمایا ہے کہ : جو بھی علی کو گالی دے ، تو گویا اس نے مجھ کو گالی دی۔
حوالے
– الشيبانی ، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفی241هـ) ، مسند أحمد بن حنبل ، جلد 6 ، صفحہ 323 ، ح26791 ، ناشر : مؤسسة قرطبة – مصر .
– النسائی ، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن ، خصائص أمير المؤمنين علی بن أبی طالب ، ج 1 ، ص 111 ، ح 91 ، باب ذكر قول النبی صلی الله عليه و سلم من سب عليا فقد سبنی ، تحقيق : أحمد ميرين البلوشی ، ناشر : مكتبة المعلا – الكويت ، الطبعة : الأولی ، 1406 .
– الذهبی ، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان أبو عبد الله، تاريخ الإسلام و وفيات المشاهير و الأعلام ، ج 3 ، ص 634 ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمری ، ناشر : دار الكتاب العربی – لبنان، بيروت ، الطبعة : الأولی ، 1407هـ – 1987م .
حاكم نيشاپوری نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔
الحاكم النيشاپوری ، محمد بن عبد الله أبو عبد الله ، المستدرك علی الصحيحين ، ج 3 ، ص 130 ، تحقيق : مصطفی عبد القادر عطا، ناشر : دار الكتب العلمية – بيروت ، الطبعة : الأولی ، 1411هـ – 1990م .
اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:
رواه أحمد و رجاله رجال الصحيح غير أبي عبد الله الجدلي و هو ثقة۔
احمد نے اسکو نقل کیا ہے اور اسکے سارے راوی، صحیح بخاری کے راوی ہیں، غیر از ابو عبد اللہ جدلی کہ وہ بھی مورد اعتماد ہے۔
الهيثمی ، علی بن أبی بكر الهيثمی ، مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، ج 9 ، ص 130 ، ناشر : دار الريان للتراث، دار الكتاب العربی، القاهرة ، بيروت – 1407
معاویہ کا امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کو گالی دینا اور دلوانے پر سب سے پہلا ثبوت میں اس متعصب ترین امامِ اہل سنت سے پیش کر رہا ہوں جس کی اہل بیت سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور جو وہابیوں اور ناصبیوں کا روحانی پیشوا ہے یعنی ابن تیمیہ ملعون..
• آئیں اور ملاحظہ فرمائیں کہ یہ دشمنِ اہل بیت بھی لکھنے پر مجبور ہے کہ معاويہ ابن ابو سفيان، سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیتا تھا کہ علی کو گالیاں دے:
و أما حديث سعد لما أمره معاوية بالسب فأبي فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب فقال ثلاث قالهن رسول الله صلي الله عليه و سلم فلن أسبه لأن يكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم الحديث فهذا حديث صحيح رواه مسلم في صحيحه۔
روایت سعد: معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ علی کو گالی دے، لیکن اس نے معاویہ کی بات کو ردّ کر دیا اور اسکے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اس پر معاویہ نے اس سے کہا کہ تم کیوں علی کو گالی نہیں دے رہے ؟ سعد نے معاویہ کو جواب دیا کہ: میں نے رسول خدا سے علی کی فضیلت کے بارے میں تین باتوں کو سنا ہے، لہذا میں کبھی بھی علی کو سبّ و شتم نہیں کروں گا، اور اگر ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے بیان فرمائی ہوتی تو، یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی بالا تر ہوتی۔
یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم نے اسکو اپنی کتاب صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے۔
إبن تيمية الحرانی، منهاج السنة النبوية ، جلد 5 ، صفحہ 42 ، تحقيق : د. محمد رشاد سالم ، ناشر: مؤسسة قرطبة ، الطبعة : الأولی، 1406
• اب میں صحیح مسلم کی وہ مکمّل حدیث نقل کر رہا ہوں جس پر ابن تیمیہ جیسے شقی نے بھی اعتراض نہیں کیا بلکہ اسے صحیح کا درجہ دیا ہے. ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَا حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ :
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ :
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ ،
دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي .
عامر ابن سعد ابن ابى وقّاص نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن معاویہ ابن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا کہ حضرت علی (ع) کو سبّ و شتم کرے، لیکن سعد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
معاویہ (ملعون) نے سعد سے پوچھا: تم علی کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ؟ سعد نے جواب دیا: تین صفات کی وجہ سے کہ جو میں نے علی (ع) کی شان میں رسول خدا (ص) سے سنی ہیں، اسی وجہ سے میں کبھی بھی ان حضرت کو گالیاں نہیں دوں گا اور اگر ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی مجھ میں پائی جاتی تو یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی !
1- رسول خدا (ص) نے ایک جنگ کے موقع پر علی (ع) کو اپنے جانشین کے طور پر مدینہ میں اپنا نائب بنایا تو حضرت علی نے ان حضرت سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے بچوں اور عوتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ !رسول خدا نے فرمایا: کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ میرے لیے وہی مقام و منزلت رکھتے ہیں کہ جو ہارون کا مقام حضرت موسی کے لیے تھا، بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
2- اور جنگ خیبر کے دن میں نے رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں پرچم اسلام اسکے ہاتھ میں دوں گا کہ جو خدا اور رسول سے محبت کرتا ہو گا اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ! اس بات کو سننے کے بعد ہم سب اس انتظار میں تھے کہ یہ فضیلت ہمیں نصیب ہو لیکن اسی وقت رسول خدا (ص) نے فرمایا علی کہاں ہے ؟ علی اس حالت میں رسول خدا کے پاس آئے کہ انکی آنکھ میں درد ہو رہا تھا، رسول خدا نے اپنا لعاب دہن حضرت علی کی آنکھ پر لگایا تو انکو درد سے شفا مل گئی اور پرچم اسلام کو انکے سپرد کر دیا اور حضرت علی کے وجود کی برکت سے اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
3- جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) نے حضرت على ، حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسين عليہم السّلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: خدایا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
حوالہ : صحيح مسلم ، جلد 7 ، صفحہ 120 ، كتاب فضائل الصحابة ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه .
اہل سنت کی نظر میں اس روایت کے صحیح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ کتاب صحیح مسلم اہل سنت کی نگاہ میں ایسی کتاب ہے کہ جسکی تمام روایات صحیح ، معتبر اور مورد قبول ہیں، اسی وجہ سے بہت سے علمائے اہل سنت نے اس روایت کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، جیسے
. ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں ، كتاب المناقب ، باب مناقب علي ابن أبي طالب
. البانی نے کتاب صحيح سنن ترمذی میں ، حدیث نمبر 2932 میں اس روایت کی تصحيح کی ہے
. ابن كثير نے کتاب البداية والنهاية سال 40 ہجری کے حوادث میں ، ج7 ، ص369
. ابن اثير نے کتاب اسد الغابۃ في معرفة الصحابة میں ترجمہ امام علی عليہ السلام میں ، ج4 ، ص99
.ذہبی نے کتاب تاريخ الاسلام میں ، ترجمہ امام علی عليہ السلام میں ، ص627 سال 40 ہجری کے حوادث میں
. ابن عساكر نے اپنی کتاب تاريخ مدينہ دمشق میں کئی جگہ پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔
تھوڑا مختصر کرتا ہوں تاکہ تحریر مزید طولانی نہ ہو ورنہ حوالے تو لاتعداد ہیں..
• بلاذری نے کتاب انساب الأشراف میں لکھا ہے کہ:
كتب معاوية إلي المغيرة بن شعبة : أظهر شتم علي وتنقصه … .
معاویہ نے مغیرہ ابن شعبہ کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ سر عام علی کو گالیاں دے اور اسکے عیوب کو بیان کرے۔
حوالہ : انساب الأشراف ، جلد 5 ، صفحہ 30 ، ط الأولي ، دار الفكر ، بيروت .
• اہل سنت کے مشہور و معروف مؤرخ امام طبری نے بھی لکھا ہے کہ:
أن معاوية بن أبي سفيان لما ولى المغيرة بن شعبة الكوفة في جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : … ولست تاركا إيصاءك بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعيب على أصحاب على والاقصاء لهم وترك الاستماع منهم … .
معاویہ نے جب سن 41 ہجری میں مغیرہ ابن شعبہ کو کوفہ کا والی و حاکم بنایا تو اسے حکم دیتے ہوئے کہا:
ایک کام کو بالکل بھولنا نہیں ہے اور اسے زیادہ تاکید کے ساتھ انجام دینا ہے، اور وہ کام، علی پر لعنت کرنا اور اسے گالیاں دینا ہے اور اسکے مقابلے پر عثمان کا ذکر احترام سے کرنا اور ہمیشہ اسکے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور علی کے اصحاب کی برائیوں کو بیان کرو اور انکو جلا وطن کرنا اور انکی کوئی بھی بات نہ سننا۔
حوالہ : تاريخ طبري ، جلد 4 ، صفحہ 188
• امام بلاذری نے اور جگہ پر لکھا ہے:
قال : خطب معاوية بالمدينة فحمد الله وأثني عليه ، وذكر علياً فنال منه ، و نسبه الي قتل عثمان و ايواء قتلته والحسن بن علي تحت المنبر .
معاویہ نے مدینہ میں خطاب کرتے ہوئے خداوند کی حمد و ثنا کرنے کے بعد علی کو برا بھلا کہا اور پھر اس نے قتل عثمان اور اسکے قاتلوں کو پناہ دینے کی ساری ذمہ داری علی پر ڈال دی، حالانکہ حسن ابن علی بھی وہاں پر حاضر تھے۔
حوالہ : أنساب الأشراف ، جلد 5 ، صفحہ 105
آخر میں اہل سنت کے مفسر قرآن کی تفسیر سے ایک حوالہ پیش کرتا ہوں کہ معاویہ کا امام علی پر سب وشتم کرنا کتنے عرصے تک جاری رہا.
امام آلوسی مفسر مشہور اہل سنت نے آيت «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ … » سورہ نحل آیت 90، کی تفسیر میں لکھا ہے:
أقامها عمر بن عبد العزيز حين آلت الخلافة إليه مقام ما كانو بنو أمية غضب الله تعالى عليهم يجعلونه في أواخر خطبهم من سب علي كرم الله تعالى وجهه ولعن كل من بغضه وسبه وكان ذلك من أعظم مآثره رضي الله تعالى عنه .
عمر ابن عبد العزیز جب خلیفہ بنا تو اس نے احسان و نیکی کو علی پر سبّ و لعن کی جگہ قرار دیا اور زندہ کیا، بنی امیہ کہ خداوند کا غضب ان پر نازل ہو، عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک نماز جمعہ کے خطبوں کے آخر میں علی پر سبّ و لعن کیا کرتے تھے کہ یہ کام عمر ابن عبد العزیز کے لیے ایک افتخار شمار ہوتا ہے۔
حوالہ : روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، آلوسي ، جلد 7 ، صفحہ 456 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1422 هـ
خدا اور اس کی تمام مخلوقات کی لعنت ہو معاویہ ابن جگر خور ہندہ پر صبح و شام.. بے شمار
“معاویہ کا حکومت حاصل کرنے کے لیے 70 ہزار اصحاب کو قتل کرنا”
معاویہ کا ہزاروں اصحاب رسول کو قتل و شہید کروانا کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں.. اس پر سب بڑی گواہ خود جنگِ صفین ہے
اب جلدی جلدی کچھ حوالے پیش کرتا ہوں.. مخصوص اصحاب کے
• (معاویہ کا حضرت عائشہ کے بھائی اور خلیفہ اول کے بیٹے کو بےدردی سے شہید کروانا اور عائشہ کا معاویہ پر لعنت کرنا)
محمد ابن ابو بكر کو معاویہ کے حکم پر گدھے کی کھال میں ڈال کر آگ لگا کر شہید کیا گیا۔
فلما بلغ ذلك عائشة جزعت عليه جزعاً شديداً و قنتت عليه في دبر الصلاة تدعو علي معاوية و عمرو.
جب یہ خبر عائشہ کو ملی تو اس نے بہت زیادہ غم و غصے کا اظہار کیا اور اسکے بعد وہ اپنی ہر نماز کے قنوت میں معاویہ اور عمرو ابن عاص پر لعنت کیا کرتی تھی۔
تاريخ الطبري، ج4، ص79
الكامل في التاريخ لإبن الأثير، ج3، ص357
البداية و النهاية لإبن كثير، ج7، ص349
• معاویہ نے رسول خدا (ص) کے بہت سے بزرگ صحابہ جیسے عمرو ابن حَمِق خزاعی ، حجر ابن عدی اور مالک اشتر وغیرہ کو شہید کیا:
تاريخ الطبري، ج4، ص72 و 187
الكامل في التاريخ لإبن الأثير، ج3، ص353 و 482
تاريخ اليعقوبي، ج2، ص230
“معاویہ کا سبطِ رسول حضرت امام حسن کو زہر سے شہید کرنا”
پہلا حوالہ :
الطبقات الكبری میں ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ:
وقال الشعبي: إنما دس اليها معاوية فقال سمي الحسن وأزوجك يزيد وأعطيك مائة الف درهم فلما مات الحسن
شعبی نے کہا ہے کہ: معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔
و قال ابن سعد في الطبقات: سمه معاوية مرارا لأنه كان يقدم عليه الشام هو و أخوه الحسين (ع).
ابن سعد نے الطبقات الکبری میں کہا ہے کہ: معاویہ نے امام حسن(ع) کو کئی بار زہر دیا کیونکہ وہ معاویہ کے پاس شام آنا چاہتے تھے۔
(سبط بن الجوزی الحنفی، شمس الدين أبو المظفر يوسف بن فرغلی بن عبد الله البغدادی ، تذكرة الخواص، ص191ـ 192، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت،)
دوسرا حوالہ :
معاوية كما قيل دهاء فدس إلي جعدة بنت الأشعث بن قيس و كانت زوجة الحسن رضي الله عنه شربة و قال لها إن قتلت الحسن زوجتك بيزيد۔ فلما توفي الحسن بعثت إلي معاوية تطلب قوله فقال لها في الجواب أنا أضن بيزيد.
معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ سالہا سال زندہ رہے۔
(السعدي الخزرجي، موفق الدين أبي العباس أحمد بن القاسم بن خليفة بن يونس ، عيون الأنباء في طبقات الأطباء، ج1، ص174، تحقيق: الدكتور نزار رضا، ناشر: دار مكتبة الحياة – بيروت.)
تیسرا حوالہ :
امامِ اہل سنت امام قرطبی اپنی كتاب التعريف بالأنساب میں لکھتے ہیں :
و مات الحسن مسموما سمته زوجته بنت الأشعث الكندية دسه إليها معاوية.
حسن مسموم دنیا سے گئے کہ ان کی بیوی نے معاویہ کے حکم ان کو زہر دیا تھا۔
(القرطبی الحنفی، أحمد بن محمد بن إبراهيم الأشعري (متوفی550هـ)، التعريف بالأنساب والتنويه بذوي الأحساب، ج1، ص3،)
چوتھا حوالہ :
امام نویری اپنی تصنیف میں یوں لکھتے ہیں
قال: و قال أبو قتادة و أبو بكر بن حفص: سم الحسن ابن علي رضي الله عنهما: سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي. قال: و قالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها و ما بذل لها في ذلك، وكان لها ضرائر و أنه وعدها بخمسين ألف درهم، و أن يزوجها من يزيد، فلما فعلت وفي لها بالمال، و قال: حبنا ليزيد يمنعنا من الوفاء لك بالشرط الثانی۔
ابوقتاده اور أبوبكر بن حفص نے کہا ہے کہ امام حسن اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ہاتھوں مسموم ہوئے۔
ایک گروہ نے کہا ہے کہ: یہ کام معاویہ کی سازش کی وجہ سے ہوا کیونکہ معاویہ امام کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ معاویہ نے اس کو وعدہ دیا کہ اگر یہ کام کرو گی تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید کی تم سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے یہ کام انجام دے دیا تو معاویہ نے اس کو درہم تو دے دیئے اور کہا کہ مجھے یزید کی جان عزیز ہے اس لیے میں اس کی شادی تم سے نہیں کروں گا۔
(النويري،شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب(متوفی733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب،ج 20، ص201، تحقيق مفيد قمحية و جماعة، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
پانچواں حوالہ :
امام زمخشری نے لکھا
جعل معاوية لجعدة بنت الأشعث امرأة الحسن مائة ألف حتي سمته، و مكث شهرين و إنه ليرفع من تحته كذا طستاً من دم
معاویہ نے ایک لاکھ دینار امام حسن کی بیوی کو دیئے اور اس سے کہا کہ امام کو زہر دے دو، امام اس واقعے کے دو ماہ بعد زندہ رہے۔ زہر کا اتنا اثر ہوا کہ خون سے بھرا ہوا طشت بار بار امام کے سامنے سے اٹھا کر لے جاتے تھے۔
( الزمخشري الخوارزمي، ابو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفی538هـ)، ربيع الأبرار، ج1، ص438،)
چھٹا حوالہ :
امام بلاذری نے انساب الأشراف میں لکھا..
معاوية دس إلي جعدة بنت الأشعث بن قيس امرأة الحسن، و أرغبها حتي سمته و كانت شانئة له.
معاویہ نے مخفی طور پر جعدہ بنت اشعث کو پیغام دیا کہ اور اس کو اتنا اصرار کیا کہ امام کو مسموم کرو، اس کا رابطہ امام سے ٹھیک نہیں تھا۔
پھر لکھتے ہیں..
و قال الهيثم بن عدي: دس معاوية إلي ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مائة ألف دينار علي أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت
ہيثم بن عدی نے کہا ہے کہ: معاویہ نے سازش کی اور سہیل ابن عمرۃ کی بیٹی کہ جو امام حسن کی بیوی تھی، سے کہا کہ اگر تم امام حسن کو زہر دو تو تم کو ایک لاکھ دینار دوں گا، اس نے بھی اس کام کو انجام دے دیا۔
(البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفی279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص389،)
ساتواں حوالہ :
أن مروان بن الحكم الذي كان حاكما للمدينة من قبل معاوية بن أبي سفيان قد أرسله معاوية و معه منديل ملطخ بالسم و قال له أن عليه بأي تدبير يستطيعه أن يخدع جعده بنت الأشعث بن قيس زوجة الحسن حتي تقدم بعدها علي إزالة وجود الحسن من هذه الدنيا بواسطة هذا المنديل، وقل لها عني أنها إذا أرسلت الحسن إلي العالم الآخر وأتمت المهمة فإن لها خمسين ألف درهم و أنها ستكون زوجا ليزيد. فأسرع مروان بن الحكم إلي المدينة ليقوم بما قاله معاوية و سعي جاهدا إلي خداع جعدة التي كان لقبها (أسماء) التي انطلت عليها الحيلة و نفذت ما قاله معاوية و دست السم للإمام الحسن عليه السلام الذي سري في جسده فنقل إلي دار السلام۔
مروان ابن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا والی تھا۔ معاویہ نے اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور کہا کہ جیسے بھی ہو جعدہ بنت اشعث کو راضی کرو کہ وہ اس رومال کے ذریعے امام حسن کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دے اور اس سے کہو کہ اگر تم نے مہم کام کو انجام دیا تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور بہت جلد تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ مروان جلدی سے مدینہ آیا تا کہ معاویہ کے حکم پر عمل کر سکے۔
آخر کار مروان نے بہت ہی حیلے اور بہانوں سے جعدہ کو اس کام کے کرنے پر راضی کر لیا۔ جعدہ نے معاویہ اور مروان کے کہنے پر امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔
(الأحمد نكري، القاضي عبد النبي بن عبد الرسول الحنفي الهندي، دستور العلماء أو جامع العلوم في اصطلاحات الفنون، ج4، ص50، تحقيق: عرب عباراته الفارسية: حسن هاني فحص، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
آٹھواں حوالہ :
ابوالفرج اصفہانی نے كتاب مقاتل الطالبين ميں لکھا:
عن مغيرة، قال: أرسل معاوية إلي ابنة الأشعث إني مزوجك بيزيد ابني، علي أن تسمي الحسن بن علي، و بعث إليها بمائة ألف درهم
مغیرہ سے روایت ہے کہ معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔
( ابو الفرج الاصفهاني، مقاتل الطالبيين، (متوفی356هـ)، مقاتل الطالبين، ج1، ص20، باب رجع الحديث الي خبر الحسن)
نواں حوالہ :
امام ابن اعثم شافعی اپنی كتاب الفتوح میں لکھا ہے
سمعنا من الثقات أنه حين قرر معاوية بن أبي سفيان أن يجعل ولده يزيدا ولي عهده، مع علمه بأن هذا الأمر صعب المنال نظر لأن الصلح الذي أبرم بينه و بين الحسن بن علي كان من بين شروطه أن يترك معاوية أمر المسلمين شوري بينهم بعد وفاته. لذلك سعي في موت الحسن بكل جهده، و أرسل مروان بن الحكم (طريد النبي صلي الله عليه و آله وسلم) إلي المدينة و أعطاه منديلا مسموما و أمره بأن يوصله إلي زوجة الحسن جعدة بنت الأشعث بن قيس بما استطاع من الحيل لكي تجعل الحسن يستعمل ذلك المنديل المسموم بعد قضاء حاجته و أن يتعهد لها بمبلغ خمسين ألف درهم و يزوجها من ابنه. فذهب مروان تنفيذا لأمر معاوية و استفرغ جهده حتي خدع زوجة الحسن و نفذت المؤامرة و علي إثر ذلك انتقل الحسن إلي دار السلام و اغترت جعدة بمواعيد مروان و أقدمت علي تلك الجريمة الشنعاء.
میں نے مورد اطمینان افراد سے سنا ہے کہ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنانے کا ارادہ کیا حالانکہ وہ خود جانتا تھا کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اس نے صلح نامے میں امام حسن کو وعدہ دیا تھا کہ وہ اپنے بعد کسی کو جانشین نہیں بنائے گا۔ اس لیے اس نے پوری کوشش شروع کر دی کہ امام حسن کو قتل کر دے۔ اسی لیے معاویہ نے مروان ابن حکم کو مدینہ روانہ کیا اور معاویہ نے اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور کہا کہ جیسے بھی ہو جعدہ بنت اشعث کو راضی کرو کہ وہ اس رومال کے ذریعے امام حسن کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دے اور اس سے کہو کہ اگر تم نے مہم کام کو انجام دیا تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور بہت جلد تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ مروان جلدی سے مدینہ گیا اور آخر کار اس نے بہت ہی حیلے اور بہانوں سے جعدہ کو اس کام کے کرنے پر راضی کر لیا۔ جعدہ نے معاویہ اور مروان کے کہنے پر اس گناہ کو انجام دیا اور امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔
(الكوفي، أبي محمد أحمد بن أعثم (متوفی314هـ)، كتاب الفتوح، ج 4، ص 319، تحقيق: علي شيري (ماجستر في التاريخ الإسلامي)، ناشر: دار الأضواء للطباعة و النشر و التوزيع ـ بيروت،)
دسواں حوالہ :
امام تلمستانی نے لکھا ہے کہ:
و مات الحسن، رضي الله عنه، مسموما يُقال إن امرأته ” جَعْدة ” بنت الأشعث بن قيس سمَّته. دَسَّ إليها معاوية أن تسمَّه فإذا مات أعطاها أربعين ألفا، و زوَّجها من يزيد فلما مات الحسن وفَّي لها بالمال و قال لها: حاجة هذا ما صنعت بابن فاطمة، فكيف تصنع بابن معاوية؟ فخسرت و ما ربحت۔
حسن(ع) مسموم دنیا سے گئے اور کہا گیا ہے کہ امام کی بیوی نے جعدہ بنت اشعث بن قیس نے امام کو زہر دیا تھا۔ معاویہ نے مخفی طور پر اس کو پیغام دیا کہ اگر تم امام حسن کو شہید کرو تو میں تم کو 40 ہزار درہم دوں گا اور تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کیا تو معاویہ نے اسے درہم تو دیئے لیکن اس سے کہا کہ جب تم نے فاطمہ کے بیٹے کے ساتھ یہ کیا ہے تو تم میرے بیٹے یزید کے ساتھ کیا کرو گی۔ پس جعدہ نے اپنا نقصان کیا اور اسکو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔
(الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفی644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج1، ص282)
گیارہواں حوالہ:
امام قرطبی مالکی لکھتے ہیں،
و قال قتادة و أبو بكر بن حفص سم الحسن بن علي سمته إمرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي. و قالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها و ما بذل لها من ذلک و كان لها ضرائر و الله أعلم
ابوقتاده اور ابوبكر بن حفص نے کہا ہے کہ امام حسن اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ہاتھوں مسموم ہوئے۔
یہ کام معاویہ نے جعدہ کے ساتھ سازش کی تھی اور اسکو یہ کام کرنے پر مال بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ معاویہ کی چند بیویاں تھیں کہ شاید انھوں نے معاویہ کو یہ کام کرنے کا کہا تھا۔
(النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفی 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج1، ص389، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت)
بارہواں حوالہ :
امام مسعودی شافعی نے لکھا ہے کہ:
و ذكر أن امرأته جَعْدة بنت الأشعث بن قيس الكندي سقته السم، و قد كان معاوية دسَّ إليها: إنك إن احتلْتِ في قتل الحسن وَجَّهت إليك بمائة ألف درهم، و زوَّجتك من يزيد
جعده بنت اشعث بن قيس کہ جو امام حسن کی بیوی تھی۔ اس نے امام کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا کیونکہ معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔
(المسعودي، ابوالحسن علي بن الحسين بن علي (متوفی346هـ) مروج الذهب، ج1، ص346، باب ذكر خلافة الحسن بن علي بن أبي طالب)
حوالے اور بھی ہیں پر میں یہاں بارہ امامی ہونے کے باعث فقط 12 حوالے پیش کیے ہیں.
“معاویہ کی سنتوں پر اصحاب رسول کا برتاؤ”
عائشہ کا معاویہ کو فرعون سے تشبیہ دینا:
اسود ابن یزید کا بیان ہے کہ میں نے عائشہ سے کہا: تمہارے لیے تعجب کی بات نہیں ہے کہ فتح مکہ کا ایک آزاد شدہ آدمی خلافت کے بارے میں اصحاب رسول خدا (ص) کی مخالفت کر رہا ہے؟
اس پر عائشہ نے جواب دیا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے ! یہ اللہ کی قدرت حاکمہ ہے جسے وہ نیک و بد سبھی کو عطا کرتا ہے، اور تاریخ میں اس طرح کے اتفاقات پیش آئے ہیں، جیسے فرعون نے چار سو سال تک مصر کے لوگوں پر حکومت کی، اور اسی طرح فرعون کے علاوہ دوسرے کافروں نے بھی اور یہی معاویہ ابن ابوسفیان کی مثال ہے۔
البدایۃ و النھایۃ ابن کثیر ج 8 ص 131
صحابی رسول خدا (ص) حضرت ابن عباس کی نظر میں معاویہ:
صحابی رسول خدا (ص) ابن عباس جنگ صفین کے بارے میں اپنے ایک بیان میں اس طرح فرماتے ہیں کہ:
جگر خوار عورت کے بیٹے (معاویہ) نے علی ابن ابی طالب (رض) کے مقابل جنگ میں بعض کمینوں اور شام کے پست افراد کو اپنا مددگار بنایا۔ رسول اللہ کے چچا زاد بھائی اور داماد جس نے سب سے پہلے رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی اور اہل بدر (بدری) میں سےتھے، جو کہ تمام جنگوں میں صاحبان فخر اور فضیلت تھے اور ہمیشہ رسول اللہ (ص) کے ساتھ ساتھ رہتے تھے، جبکہ معاویہ اور ابو سفیان دونوں اس وقت مشرک اور بت پرست تھے۔ یاد رکھو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں تمام ہستی ہے، اور اس کو ظہور میں لانے والا ہے، اور ہر ہستی وجود پر حکومت اور سلطنت کے لیے سزاوار ہے، علی ابن ابی طالب رسول اللہ کے ہم رکاب جنگ کرتے تھے، اور علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
خدا اور اس کا رسول جو بھی کہتے ہیں سچ کہتے ہیں،
لیکن اس کے مقابل معاویہ اور ابوسفیان کہتے تھے:
خدا اور اس کا رسول جھوٹا ہے،
لیکن اس کے باوجود معاویہ جس موقعیت کا آج حامل ہے ماضی کی موقعیت سے ہرگز بہتر، یا زیادہ پرہیزگار ، اور ہدایت یافتہ نہیں ہے۔
کتاب صفین، ص 360
شرح ابن ابی الحدید ج 1 ص 504
صحابی حضرت عمار یاسر (رض) کی نگاہ میں معاویہ:
یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عمار یاسر نے جنگ صفین کے دوران فرمایا:
اے مسلمانو ! کیا تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو کہ جس نے خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی، رسول کی مخالفت میں جدوجہد کی، مسلمانوں پر مسلح ہو کر تجاوز کیا، مشرکوں کی حمایت کی، اور جب خدا نے چاہا کہ وہ اپنے دین کی حمایت کرے اور اس کو نمایاں کرے اور اپنے رسول کی مدد کرے، تو وہ شخص پیغمبر کے پاس آتا ہے اور مسلمان ہو جانے کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ خدا کی قسم ! اس نے اسلام کو ہرگز دل سے قبول نہیں کیا، بلکہ ڈر اور خوف کے سبب اس نے اظہار اسلام کیا، جب پیغمبر دنیا سے گئے تو خدا کی قسم ہم جانتے تھے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن اور تباہ کاروں کا دوست ہے ؟ ہاں ! وہ شخص معاویہ ہی ہے، لہذا تم اس پر لعنت بھیجو، اور اس کے ساتھ جنگ کرو، اس لیے کہ یہ وہ شخص ہے جو دین کی مشعل کو خاموش اور خدا کے دشمنوں کی مدد کر رہا ہے۔
تاریخ طبری ج 6 ص 7
کتاب صفین ص 240
الکامل لابن الاثیر ج 3 ص 136
کتاب صحیح مسلم میں معاویہ کے بارے میں جس میں رسول خدا (ص) نے معاویہ کو اس وقت بد دعا دی جب معاویہ نے رسول خدا کے حکم کی نافرمانی کی۔
اسی حدیث کی تشریح میں امام نووی نے اہلسنت کے امام نسائی کا قول بھی نقل کیا ہے کہ:
معاویہ کے بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے، سوائے اس ایک بد دعا والی حدیث کے۔
اب تحریر کا اختتام بھی لعنت کے جملوں کے ساتھ کر رہا ہوں.
والسلام علیکم، احقر #ابوعبداللہ
اَللّـهُمَّ خُصَّ اَنْتَ اَوَّلَ ظالِم بِاللَّعْنِ مِنّي وَابْدَأْ بِهِ اَوَّلاً ثُمَّ (الْعَنِ) الثّانيَ وَالثّالِثَ وَالرّابِعَ اَللّـهُمَّ الْعَنْ َيَزيدَ خامِساً وَالْعَنْ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ زِياد وَابْنَ مَرْجانَةَ وَعُمَرَ بْنَ سَعْد وَشِمْراً وَآلَ اَبي سُفْيانَ وَآلَ زِياد وَآلَ مَرْوانَ اِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ.