18 Zilhaj Eid e Ghadeer Ya Qatl e Usman ki Tareekh?

السلام عليكم مومنین و مومنات،

یہ کوئی نیا نہیں ہم شیعوں کے لیے کہ ہمارے تمام متبرک دنوں پر دشمنانِ اہل بیت ہمیشہ سے ایسا کرتے آئے ہیں جس سے اس دن کی فضیلت کو کم کیا جائے یا اس پر عوام کا ذہن کسی اور طرف موڑ دیا جائے جیسا کہ یکم محرم کی تاریخ کو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ سے منسوب کر کے ان کا ” یوم شھادت ” منایا جانے لگا۔ جبکہ قتلِ عثمان بن عفان ہو یا قتلِ عمر بن خطاب، ہمارا تمام دشمنان اسلام کو کھلا چیلینج ہے کہ ان تاریخوں کو تم اپنی ہی کسی صحیح کتاب کی کسی صحیح حدیث و روایت سے ثابت کر کے دکھا دو اور یہ بھی ثابت کرو کہ تمہارے ہاں ایسے دن منانا بدعت نہیں بلکہ جائز اور حلال ہیں۔

خیر بات کو مختصر کرتا ہوں! تو اب براہ راست اس پر گفتگو کا آغاز کہ قتل عثمان کے محرکات کیا تھے اور کن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا تاکہ صاحبہ کے غلاموں کو اصحابي كاالنجوم کی تفسیر پیش کی جا سکے ۔

اب مختصر سی بات 18 ذوالحجہ کی تاریخ پر کر لوں کہ اہل سنت میں اس تاریخ کا کیا مقام ہے پھر مفصل انداز میں قتل عثمان پر بات کروں گا۔

– عیدِ غدیر کے دن خوشیاں منانا مسلمانوں کی سیرت رہی ہے

ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب الآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن میں تمام مسلمان خوشیاں مناتے تھے اور اہتمام کرتے تھے۔

(حوالہ : ترجمہ آثارالباقیہ، البیرونی ص/ ۳۹۵)

صرف ابن خلکان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم امام ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے۔

حوالہ : ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب ، تالیف ابو منصور عبد الملک بن محمد بن اسماعیل ثعالبی

شیخین(حضرات ابوبکر و عمر) و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت کے منبر سے اترنے کے بعد علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔

۔ شخین وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام علیؑ کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی

”ہنیئاً لک یاعلی بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولای ومولیٰ کل مومن ومؤمنة“

یعنی اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے ۔

عالم اہل سنت ، امام بغدادی ، تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ

جو بھی 18 ذولحجّہ کو روزہ رکھے، خداوند عالم 6 ماہ روزے کا ثواب اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے اور یہ دن عید غدیر کا دن ہے۔

حوالہ: (خطیب ابوبکر بغدادی، تاریخ بغداد ج ۸، ص۲۸۴)

تو ثابت ہوا کہ 18 ذوالحجہ کا دن عید کا دن ہے اور خوشی منانے اور تہنیت پیش کرنے کا دن ہے ناکہ عثمان کے قتل کی تاریخ۔

تو تحریر کو اب میں کچھ حصوں میں یوں تقسیم کر رہا ہوں:

1- کیا تمام صاحبہ ستاورں کی مانند ہیں ؟

2- عثمان بن عفان کی ذوالنورین والی حدیث جعلی ہے

3- اسبابِ قتل: عثمان بن عفان کے عظیم جرائم

4- حضرت عائشہ اور اصحابِ رسول کا عثمان بن عفان کے متعلق بیانیہ

5- عثمان بن عفان کے گھر کا گھیراو اور قتل میں کون کون اصحاب شامل تھے

6- عثمان کا معاویہ بن ابوسفیان کو اپنا قاتل قرار دینا

7- عثمان بن عفان کا توبہ نامہ

8- قتل عثمان پر امام علیؑ کا موقف و عمل

1- کیا تمام صاحبہ ستاورں کی مانند ہیں ؟

ویسے تو اس پر مکمل کتابچہ لکھا جا سکتا ہے پر یہ طوالت سے بچنے کے لئے ایک ہی حدیث پیش کروں گا اور وہ بھی مسلمانوں کی قرآن کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب ، صحیح بخاری سے تاکہ سند پر بحث کی ضرورت ہی نہ رہے ۔

بخاری نے ابو حازم سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے سہل بن سعد سے سنا ہے:

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا: میں حوض کوثر پر تم سے پہلے پہونچ جا وٴنگا ، اور جو بھی حوض کوثر تک پہونچے گا اور آب کوثر سے سیراب ہوگا ،تواس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی ، ایک گروہ حوض کوثر پر میرے پا س آیئگا میں ان کو پہچان لوںگا اور وہ بھی مجھے پہچان لیں گے لیکن مبرے اور ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے گا ۔

ابو حازم نے کہا ہے جب میں اس حدیث کو نقل کررہا تھا تو نعمان بن ابی عیاش نے بھی سنااورکہا :کیا سھل نے اس طرح بیان کیا ہے ؟ میں نے کہا: ہاں، اس نے اسی طرح سے بیان کیا ہے ، تو اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اس طرح کا کلام میں نے ابو سعید خدری سے بھی سنا ہے ، لیکن کچھ اضافہ کے ساتھ کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا

یہ میرے اصحاب ہیں تو کہا جائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ انھوں نے تمہارے بعد کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں ، تو میں ان سے کہونگا کہ دور ہوجاوٴ تم نے میرے بعد تبدیلی کی ہے۔

(صحیح بخاری : ج ۴ ، ص ۳۵۵)

تو اب ہمارے اہل سنت بھائی بتائیں کہ آپ کے عقیدے میں تو تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جبکہ رسول اللہ انہیں حوز کوثر سے بھگا دیں گے تو آخر وہ کون سے اصحاب ہیں جنہوں نے بعدِ رسول دین میں تبدیلیاں کی تھیں ؟؟؟

تو ثابت ہوا کہ اصحابي كاالنجوم کی حدیث ہی جعلی اور باطل ہے ورنہ بخاری یہ حدیث اپنی صحیح میں لاتے ہی نہیں۔

2- عثمان بن عفان کی ذوالنورین والی حدیث جعلی ہے

اس ذوالنورین پر میں بناتِ رسول والی تحریر میں بھی لکھ چکا ہوں لیکن یہاں بھی دوسری اہل سنت احادیت پیش کر کے مزید ثابت کردوں کہ یہ ذوالنورین اور دیگر روایات جو عثمان بن عفان کی شان میں موجود ہیں وہ تمام کی تمام جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں۔

کچھ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں

حدیث 01 :

ابن عباس نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: بہشت میں کوئی بھی درخت ایسا نہیں ہے جس کے پتوں کے اوپر یہ لکھا ہوا نہ ہو : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ابوبکر صدیق ، عمر الفاروق، عثمان ذوالنورین.

(کتاب المعجم الکبیر ، جلد ۱۱، ص ۶۳)

اب اس حدیث پر اہل سنت علمائے حدیث، امام طبرانی اور امام ذھبی کی رائے ملاحظہ ہو۔

طبرانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے: یہ حدیث جعلی ہے کیونکہ علی بن جمیل اس حدیث کی سند میں موجود ہے اور یہ شخص بہت زیادہ حدیث جعل کرنے والا ہے ،اور یہ حدیث فقط اسی سے نقل ہوئی ہے جبکہ ذھبی بھی اس حدیث کو باطل سمجھتا ہے۔

(میزان الاعتدال ، جلد ۲ ،ص۶۳۳)

اب ایک اور حدیث پھر اگلے حصے کی طرف بڑھتا ہوں ۔۔

حدیث 02 :

انس پیغمبر اسلام (ص) سے نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :

جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا اور میں بہشت میں داخل ہواتو اچانک میں نے ایک سیب دیکھا جو حور کے ہاتھ میں لٹکا ہوا تھا تو اس نے کہا کہ میں عثمان کے لئے ہوں جو مظلوم قتل ہوئے ۔

اس حدیث کو ذھبی نے میز ان الاعتدال میں عباس بن محمد عدوی وضّا ع سے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث جعلی ہے ۔ اور ابن حجر کہتا ہے : اصلاً یہ پیغمبر (ص) کا کلام ہی نہیں ہے۔

میزان الاعتدال ، جلد ۲ ص ۳۸۶

کتاب لسان المیزان ، جلد ۳ ،ص ۳۰۸

تو ثابت ہوا کہ جن احادیث کو 18 ذوالحجہ کے دن فضیلتِ عثمان سے پھیلایا جا رہا ہے وہ خود علمائے اہل سنت کے نزدیک جعلی ہیں۔

3- اسبابِ قتل: عثمان بن عفان کے عظیم جرائم

ویسے تو تیسرے خلیفہ پر اگر چارج چیٹ عوام کے آگے پیش کی جائے تو اس پر مستقل کتاب لکھنا پڑ جائے گی تو تحریر کو مختصر رکھتے ہوئے پوائنٹس کی صورت میں پیش کر رہا ہوں

عثمان بن عفان کی اسلامی احکامات اور اسوہ رسول میں تبدیلیاں

– عثمان نے رسول اللہ(ص) کی سنت کے خلاف منا میں نماز پوری پڑھی اور جب صحابہ جیسے عبدالرحمان بن عوف کے اعتراض کا سامنا ہوا اور جواب دینے سے قاصر رہا تو کہا “ہذا رَأىٌ رَأَیْتُہ” ” یہ میری رای ہے جو میں نے دی ہے”

حوالہ : تاریخ اسلام، ج4 ص268

– متقی ہندی کے کہنے کے مطابق وضو میں تبدیلی اور شیعہ اور اہل سنت کا اختلاف بھی اس کے دَور خلافت سے شروع ہوا ہے.

حوالہ : کنزالعمال ج 9 ص 443 ح 26890

– ایک جگہ عثمان خود اقرار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے ہاتھ اور منہ دھونے کے بعد سر کا مسح کیا اور پھر پا‎‎‎ؤں کا مسح کیا

حوالہ: المصنف في الأحاديث والآثار ج 1 ص 16

– بنی امیہ کے داغدار ماضی والے افراد کوعوامی خزانے پر مسلط کرنا صحابہ اور تابعین پر ناگوار گزرا۔ مثال کے طور پر مدینہ کے مشرق میں مہرقہ نامی جگہ حارث ابن حکم کو بخشدیا یہ وہی جگہ ہے جہاں جب رسول اللہ پہنچے تو پاوں زمین پر مارا اور فرمایا:

یہ جگہ ہماری نماز کی جگہ، طلب باران کی جگہ اور عید الاضحی اور عید فطر کی جگہ ہے اس جگہ کو ویران کرے گا اور اس جگہ سے کرایہ لے گا اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جو ہماری بازار سے کو‎ئی چیز کم کرے۔

اسی طرح فدک مروان بن حکم کو دیا افریقہ کے خمس، غنا‎ئم کو بھی اسے بخش دیا اور یہ واقعہ مسلمانوں پر اتنا ناگوار گزرا کہ عبد الرحمن بن جنبل جحمی نے اس کی مذمت میں اشعار پڑھا.

حوالہ: المصنف في الأحاديث والآثار ج 1 ص 16

– اسی طرح اہل سنت منابع کے مطابق عثمان نے اس غنیمت سے جو مسلمانوں کا حق تھا چار لاکھ درہم عبداللہ بن خالد ابن اسید بن رافع کو اور ایک لاکھ حکم ابن ابی العاص کو دیے۔

حوالہ : البدء و التاریخ، ج ۵، ص ۲۰۰

– عثمان نے عمار یاسر کو کوفہ کی امارت سے برطرف کیا اور اپنے سوتیلے بھائی ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو اس کی جگہ مقرر کیا، ابوموسی اشعری کو بصرہ کی امارت سے ہٹا کر اپنا ماموں زاد بھا‎ئی، عبداللہ بن عامر بن کریز کو مقرر کیا جبکہ وہ ایک تازہ جوان تھا، عمرو بن عاص کو مصر کی جنگ کا سپہ سالار معین کیا اور عبد اللہ بن ابی سرح کو مصر کے خراج کا متولی بنا دیا جبکہ وہ اسکا رضاعی بھا‎‎ئی تھا۔ پھر عمرو ابن عاص کو سپہ سالاری سے برطرف کر کے دونوں منصب عبد اللہ ابن ابی سرح کے سپرد کیا- جبکہ ان میں سے بعض لوگ تو اسلامی آ‎ئین اور پیغمبر اکرم کی معنوی میراث کے اتنے پابند بھی نہیں تھے۔

حوالہ : دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ، ص۱۷۴

– بعض لوگ جن کو پیغمبراکرم(ص) نے مدینہ سے جلا وطن کیا تھا، عثمان کے دَور میں اس کی خواہش کے مطابق مدینہ لوٹ آ‎ئے اور حکومتی عہدوں پر فا‎ئز ہو‎ئے، مثال کے طور پر عثمان نے اپنا رشتہ دار حکم ابن ابی العاص کو جلاوطنی سے واپس بلایا اور اس کے بیٹا مروان کو اپنا مشاور بنایا۔

حوالہ : ابن عبد البر، الاستیعاب، جلد ۳، صفحہ ۱۳۸۸

– پیغمبر اکرم نے اسرار فاش کرنے کے جرم میں خبیث حکم ابن ابی العاص کو شہر بدر کیا تھا اسے عثمان نے مدینہ بلا کر حکومتی عہدے پر فا‎ئز کر دیا۔

حوالہ : البدء و التاریخ، جلد ۵، صفحہ ۲۰۰ – دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۹

– عبد اللہ بن ابی سرح، عثمان کا رضاعی بھا‎ئی، مصر کا گورنر بنا، اس کا ماضی اسلام میں کو‎ئی اچھا نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ مدینہ میں کاتب وحی تھا لیکن مرتد ہوا اور قریش سے جا ملا۔ ایک آیہ شریفہ (سورہ أنعام/آیہ ۹۳) بھی اسکی مذمت میں نازل ہو‎ئی. وہ چونکہ قریش کی نسبت پیغمبراکرم(ص) کی ذہنیت سے خوب واقف تھا اس لیے پیغمبراکرم(ص) سے روبرو ہونے کا مشورہ دیتا تھا.

حوالہ : ابن عبد البر، الاستیعاب، جلد ۱، صفحہ ۶۹ – واقدی، مغازی، جلد ۲، صفحہ ۷۸۷

– عثمان کا رشتہ دار ولید بن عقبہ جسے عثمان نے کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا وہ ظاہری طور پر بھی اسلامی احکام کی رعایت نہیں کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شراب کی حالت میں صبح کی نماز چار رکعت پڑھی اور مسجد میں حاضر لوگوں سے کہا اگر چاہو تو اس سے زیادہ پڑھوں۔

ولید کے شراب پینے کی خبر عثمان تک پہنچی لیکن عثمان نے اس پر شراب پینے کی حد جاری نہیں کی ولید وہ شخص ہے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم کے زمانے میں ایک آیہ نازل ہو‎ئی جس میں اسکو فاسق کہا گیا.

حوالہ : امامت و سیاست/ترجمہ، صفحہ۵۴ – طبری، تفسیر جامع البیان، جلد ۲۶، صفحہ ۷۸

تو حضرات یہ تھے ان لاتعداد جرائم میں سے کچھ کا ذکر جو عثمان بن عفان نے اپنی خلافت کے دور میں انجام دیئے اور یہی جرائم اس کی قتل کی وجہ بنے۔ اب کیا کوئی عقل و شعور رکھنے والا انسان ایسے فرد کے لئے لفظ شہادت استعمال کر سکتا ہے کہ جس نے دین اسلام اور اسوہ رسول کو بدل ڈالا اور احکاماتِ دین کا کھلم کھلا مزاق اڑایا ؟

اب آگے چلتے ہیں ۔۔

4- حضرت عائشہ اور اصحابِ رسول کا عثمان بن عفان کے متعلق بیانیہ

اس حصہ پر بھی اگر تفصیل سے بحث کی جائے تو اس پر بھی پوری کتاب تشکیل پا سکتی ہے کہ کن کن اصحابِ رسول اور ازواج رسول کی عثمان بن عفان کے بارے میں کیا رائے تھی ۔۔

بس مختصر بیان کر کے آگے بڑھتا ہوں تاکہ مزید حصوں پر بھی لکھ سکوں ۔۔

اس حقیقت پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ سب سے زیادہ عائشہ اور طلحہ اور زبیر نے لوگوں کو عثمان کی مخالفت پر برانگیختہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے جو کہ عثمان کے قتل پر منتج ہوئے۔

ان مخالفین میں زبیر بن عوام سب سے پیش پیش تھے اور طلحہ بن عبید اللہ اول الذکر کی بہ نسبت کچھ کم مخالف تھے ۔

عثمان نے بھی ایک دفعہ طلحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا :

ویلی من طلحہ ! اعطیتہ کذا ذھبا وھو یروم ۔۔۔۔۔۔ اللھم لا تمتعہ بہ ولقہ عواقب بغیہ “

مجھے طلحہ پر سخت افسوس ہے کہ میں نے اسے اتنا سونا دیا تھا اور وہ آج مجھے قتل کرنا چاہتا ہے پروردگا ر ! اسے دولت سے لطف اندوز نہ کرنا اور اسے بغاوت کے انجام بد تک پہنچا نا ۔

حوالہ : الفنتہ الکبری ، صفحہ 8

قتل عثمان میں حضرت عائشہ کا کردار تو بالکل واضح ہے. حضرت عائشہ ہی وہ خاتون تھیں جنہوں نے کئی دفعہ رسول خدا (ص) کی قمیص دکھا کر عثمان کو کہا تھا کہ :

رسول خدا کی ابھی قمیص بھی بو سیدہ نہیں ہوئی مگر تم نے ان کی سنت کو ترک کر دیا ۔

اور کئی مرتبہ پردہ کے پیچھے سے کھڑے ہوکر انہوں نے قتل عثمان کا ایسے فتویٰ دیا تھا ۔

“اقتلوا نعثلا عثمان فقد كفر “

تم نعثل عثمان کو قتل کرو کہ وہ کافر ہو گیا ہے”

حوالے :

إبن الأثير – النهاية في غريب الحديث -الجزء : ( 5 ) – رقم الصفحة : ( 79 )

إبن الأثير – الكامل في التاريخ -الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 206 / 207 )

تاريخ الطبري – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 477 )

أحمد بن أعثم الكوفي – كتاب الفتوح – الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 437 )

إبن قتيبة الدينوري – الإمامة والسياسة – تحقيق الشيري – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 72 )

إبن قتيبة الدينوري – الإمامة والسياسة – تحقيق الزيني – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 51 )

الرازي – المحصول – الجزء : ( 4 ) – رقم الصفحة : ( 343 )

الحلبي – السيرة الحلبية – الجزء : ( 3 ) – رقم الصفحة : ( 356 )

إبن أبي الحديد – شرح نهج البلاغة – الجزء : ( 6 ) – رقم الصفحة : ( 215 )

إبن منظور – لسان العرب – الجزء : ( 11 ) – رقم الصفحة : ( 669 – 670 )

الزبيدي – تاج العروس – الجزء : ( 8 ) – رقم الصفحة : ( 141 )

حضرت عبداللہ بن مسعود کی وصیت :

حضرت ابن مسعود وصیت کرکے گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ میں عثمان شامل نہ ہو۔

(حوالہ : البلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد چہارم ۔ ص ۲۷)

عبدالرحمن بن عوف کی وصیت:

عبدالرحمن بن عوف یہ وصیت کرکے مرے تھے کہ ان کے جنازے میں عثمان شریک نہ ہو۔

(حوالہ: البلاذری ۔انساب الاشراف ۔ جلد پنجم ۔ ص ۷۴)

عثمان کے متعلق حجر بن عدی کا عقیدہ:

عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنی حکومت میںظلم کیا اور نا حق کام انجام دیا ۔

(حوالہ : تاریخ الطبری : ج 5 ص 275 – أنساب الأشراف : ج 5 ص 266)

یہ تھے کچھ حوالے اب اگلے حصے پر بڑھتے ہیں

5- عثمان بن عفان کے گھر کا گھیراو، کون کون اصحاب شامل تھے

مروّج الذھب میں ذکر ہوا ہے : ٣٥ ویں ہجری میں کوفہ سے حضرت مالک بن حارث نَخعی دو سو افراد کے ساتھ، بصرہ سے حضرت حکیم بن جنبلہ عبدی سو افراد کے ساتھ ، مصر سے حضرت عبدالرحمن بن عدیس بلوی (واقدی اور دیگر سیرت لکھنے والوں نے اس کا شمار ان افراد میں کیا ہے جنھوں نے صلح حدبیہ میں درخت کے نیچے بیعت کی تھی جو “”بیعت شجرہ”” یا “”بیعت رضوا ن””کے نام سے معروف ہے) چھے سو افراد کے ساتھ اور ان کے علاوہ بہت سے لوگ جیسے حضرت عمرہ بن حَمقِ خزاعی اور حضرت سعد بن حُمران تجیبی مصر سے روانہ ہوئے ۔

پہلے خلیفہ کے بیٹے حضرت محمد بن ابی بکر بھی مصریوں کے ہمراہ تھے انھوں نے مصر میں اپنی تقریر سے عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا۔

حوالے :

تاب مروّج الذہب : جلد ٢ صفحہ ٣٥٢

تاریخ مدینہ ، جلد٤ ، صفحہ ١١٥٥تا ١١٦٠

عشرہ مبشرہ میں شامل طلحہ بن عبیداللہ کا عثمان کے خلاف اہل مصر کو امادہ کرنا

کتاب الامامة والسیاسة میں آیا ہے کہ طلحہ نے اہل مصر کو ایک خط تحریر کیا جس میں اس نے ان کو عثمان کے قتل کے لیے آمادہ کیا جس کا مضمون اس طرح سے ہے :

اس خدا کے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے مصر میں رہنے والے مہاجرین اور شورا کی باقی صحابہ امابعد ہماری طرف آو اور جانشین پیغمبر کو آکر سنبھال لو قبل اس کے کہ وہ سزا دینے والے والوں کی گرفت میں اجائے کیونکہ کتاب خدا کو تبدیل اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں بہت تبدیلی آگئی ہے اور پہلے دونو ں خلیفہ کے احکام کی صورت کو بد ل دالا ہے ، ہم باقی اصحاب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور نیک تابعین کو کہ جو اس خط کو پڑھیں خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ ہماری طرف آئیں اور ہمارا حق ان سے دلائیں ، اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو ہمارے پاس آو اور حق کو وہیں اس کی جگہ پر قائم کرو جس طرح سے وہ تمہارے پیغمبر اور دونوں خلفاء سے جدا ہوگیا ہے ، ہمارے حق اور حصہ پر جو بیت المال سے تھا اس پر مسلط ہوگئے ہیں ہم اور ہمارے کاموں میں رخنہ پیدا کردہا ہے ہمارے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان کی جانشینی رحمت تھی لیکن اب یہ سلطنت ایک ستم ہے جو بھی جس چیز پر مسلط ہے وہ اس کو کھا رہا ہے۔

حوالہ: الامامة والسیاسة : جلد ١، ص ٥٣

عثمان کے گھر تک کھانا اور پانی پہنچنے پر پابندی

کتاب الامامة وا لسیاسة میں ذکر ہوا ہے کہ کوفہ سے مالک اشتر نخعی کی قیادت میں ایک ہزار اور مصر سے ابن ابی حذ یفہ کی قیادت میں چار سو افراد آئے ، ان کے علاوہ کوفہ اور مصر کے رہنے والے کچھ لوگ پہلے ہی سے عثمان کے گھر کے سامنے موجود تھے اور طلحہ ان دونوں گروہوں کو عثمان کے خلاف بھڑکا تا تھا ۔

طلحہ نے ان سے کہا : جب تک عثمان تک کھانا اور پانی پہنچتا رہے گا وہ تمہارے محاصرہ سے نہیں ڈرے گا ، لہذ ا یہ لوگ عثمان تک پانی اور کھانا پہنچنے میں مانع ہوئے۔

حوالہ : الامامة و السیا سة : جلد١، ص٥٦

تاریخ الطبری میں ( عبد الرحمن بن یسار سے نقل ہوا ہے ) ذکر ہوا ہے کہ جب لوگوں نے ان چیزوں کا ملاحظہ کیا جو عثمان نے انجام دی تھیں تو پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جو صحابی مدینہ میں تھے انھوں نے پیغمبر اسلام کے ان اصحاب کو جو مدینہ سے باہر تھے اس طرح سے تحریر کیا :

تم لوگ راہ خدا میں جہاد کرنے اور دین محمد کی حفاظت کے لیے باہر گئے ہو لیکن دین محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے پیچھے تباہ و برباد ہوگیا ہے ، لہذا جلدی کرو اور دین محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو سہارا دو ۔

اصحاب پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) چاروں طرف سے آگئے یہاں تک کے عثمان کو قتل کردیا گیا ۔

حوالے:

تاریخ الطبری : جلد٤ ، ص ٣٦٧

کتاب الکامل فی التاریخ : جلد ٢ ص ٢٨٧

شرح نھج البلاغہ : جلد ٢ص ١٤٩

عثمان کے قتل میں حضرت محمد بن ابی حذیفہ کا منصوبہ

ابو القاسم محمد بن ابی حذیفہ بن عتبہ عیشمی ، عتبہ بن ربیعہ کہ جو (مشرکین کا سردار تھا ) (1) اس کا نواسہ اور معاویہ کے ماموں کا بیٹا تھا (2)محمد کا باپ مکہ میں مسلمان ہو ا تھا محمد کے ماں باپ نے جب حبشہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں پر محمد کی ولادت ہوئی (3) اور محمد نے اپنے والدین کی شہادت کے بعد عثمان کے یہاں پرورش پائی (4) ۔

تعجب کی بات ہے کہ جب لوگوں نے عثمان کے خلاف شورش کی تو محمد بھی اس وقت عثمان کا شدید مخالف تھا (5) اس نے اہل مصر کو عثمان کے خلاف بہت اُکسایا (6) اور ظاہری طور پر عثمان کے ( گھر) کا محاصرہ کرنے ا ور اس کے قتل میں شریک تھا( 7) ۔

اسی بات کے ضمن میں تاریخ الطبری میں ( زہری سے نقل )ہوا ہے : کہ اسی سال جب عبداللہ بن سعد جوکہ (مصر کا حاکم تھا جب رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے نکلا) تو محمد بن ابی بکر و محمد بن ابی حذیفہ بھی اس کے (لشکر میں) ساتھ ساتھ تھے ، انھوں نے عثمان کے عیوب اور اس کی بدعتوں ونیز دونوں خلفاء کی روش سے مخالفت کو اس کے سامنے بیان کیا اور اس کے خون کو مباح قراردیا اور کہا : کہ عثمان نے عبداللہ بن سعد کو اپنا گورنر بنایا ہے جبکہ یہ وہی ہے کہ جس کے خون کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مباح قراردیا تھا اور قرآن نے اس کے کفر کا اعلان کیا تھا ، پیغمبر خدا نے جس کو مدینہ سے باہر نکال دیا تھا عثمان نے اس کو واپس بلالیا ، پیغمبر اسلام کے اصحاب کو ایک طرف کردیا اور سعید بن عاص و عبد اللہ بن عامر کو اپنا کارندہ ( گورنر) بنالیا ، جیسے ہی یہ خبر عبد اللہ بن سعد کو پہونچی تو اس نے ان سے کہا : کہ ہمارے ساتھ مت آو ، پس یہ دونوں ایک ایسے گروہ کے ساتھ ہوگئے جن میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا جس وقت انھوں نے دشمنوں سے ملاقات کی تو اس وقت ان دونوں کی حالت مسلمانوں سے بتر تھی جب ان سے اس کے بارے میں معلوم کیا تو انھوں نے کہا : کس طرح سے ایسے شخص کے ہمراہ رہکر جنگ کریں جو اس کے لائق نہیں ہے کہ اس کے حکم کو قبول کیا جائے ؟ چونکہ عبد اللہ بن سعد کو عثمان نے اپنا گورنر بنا لیا اور عثمان نے ایسا ایسا کیا ہے لہذ ا اس کی فوج کے سپاہی بھی جنگ کرنے میں سستی کرنے لگے اور عثمان کے عیبوں کو برملا بیان کرنے لگے ( 😎

حوالے ملاحظہ فرمائیں

(1) ۔ سیر أعلام النبلاء : جلد٣ص ٤٨٠ الرقم ١٠٣، المستدرک علی الصھیحین : جلد ٣ ص ٢٤٧۔

(2) رجال الکشی: جلد ١ ص ٢٨٦ الرقم ١٢٥، کتاب الغارات : جلد ١ ص ٣٢٨، تاریخ الطبری : جلد ٥ ص ١٠٦، اُسد الغابہ : جلد ٥ ص ٨٢ الرقم ٤٧٢٠۔

(3) ۔ الطبقات الکبری : جلد ٣ ص ٤٨، المعارف :لابن قتیبة : ص ٢٧٢، تاریخ الاسلام للذھبی : جلد ٣ ص ٦٠٢، سیر أعلام النبلاء : جلد ٣ ص ٤٧٩ الرقم ١٠٣۔

(4) ۔ المعارف : لابن قتیبة : ص ٢٧٢،تاریخ الاسلام للذھبی : جلد ٣ ص ٦٠٢، سیر أعلام النبلاء : جلد ٣ ص٤٨٠، الرقم ١٠٣، الاستیعاب : ج٣ ص ٤٢٦ الرقم ٢٣٥٤۔

(5) ۔ الاستیعاب : ج٣ ص ٤٢٦ الرقم ٢٣٥٤ ، اُسد الغابہ : جلد ٥ ص ٨٢ الرقم ٤٧٢٠، الانساب الاشراف : جلد ٦ ص ١٦٣، تاریخ الطبری : جلد ٤ ص ٢٩٢، الکامل فی التاریخ : جلد٢ ص ٣٥٢۔

(6) ۔ الطبقات الکبری : جلد ٣ ص٨٤، الانساب الاشراف : جلد ٦ ص ١٦٤، تاریخ الطبری : جلد ٤ ص ٢٩٢، الکامل فی التاریخ : جلد٢ ص ٣٥٢و٣٥٣۔

(7) ۔ اُسد الغابة : جلد ٥ ص ٨٢و ٨٣ الرقم ٤٧٢٠۔

(😎 ۔ تاریخ الطبری :جلد٢ ص ٣٥٢و٣٥٣، الکامل فی التاریخ : جلد٢ ص٢٥٤

اب جلدی جلدی مزید آگے بڑھتا ہوں کہ تحریر بہت طویل ہو گئی ہے

6- عثمان کا معاویہ بن ابوسفیان کو اپنا قاتل قرار دینا

تاریخ طبری میں ( محمد بن سائب کلبی سے نقل کرتے ہوئے ) ذکر ہوا ہے جیسے ہی عثمان نے یہ دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اورلوگ کس طرح سے ان کے مقابلہ میں کھڑے ہیں تو انھوں نے شام میں معاویہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا :

«اس خدا کے نام جو بخشنے والا اور مہربان ہے ، امابعد ،ا ہل مدینہ کافر ہوگئے ہیں، میری اطاعت نہیں کرتے، انھوں میری بیعت توڑ دی ہے لہذا تمہارے پاس جو شامی جنگجو ہیں ان کو کسی بھی طرح سے میری طرف بھیج دو «

جب خط معاویہ کے پاس پہنچا تو وہ انتظار کرنے لگا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اصحاب پیغمبر( عثمان کے خلاف ) جمع ہوگئے ہیں اس لئے ان کی مخالفت کرنا بہتر نہیں ہے (١) ۔

نیز تاریخ اسلام میں ( ابن زبیر اور ابن عباس کے نقل کے مطابق ) ذکر ہوا ہے : عثمان نے مِسوَر بن مَخرَمہ کو معاویہ کے پاس بھیجا ( اور اس کو یہ ذمہ داری دی)کہ وہ معاویہ کو اطلاع کردے کہ عثمان محاصرہ میں ہے اور اس کو حکم دیا کہ وہ بہت جلد ایک لشکر اس کی طرف بھیج دے ۔

جیسے ہی مسور، معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ، مسلم بن عقبہ، اور ابن حدیج سوار ہو کر مدینہ کے لیے نکل پڑے اور دس دن میں شام سے مدینہ پہونچ گئے ، معاویہ آدھی رات کے وقت عثمان کے پاس پہونچا ، اس نے عثمان کے سر کا بوسہ لیا ۔

عثمان نے کہا: تمہارا لشکر کہا ں ہے ؟

معاویہ نے کہا : ہم صرف تین آدمی آئے ہیں ۔

عثمان نے کہا : خدا وند عالم تجھے رشتہ داری کی نعمت نہ دے اور تیری مدد نہ کرے ، تجھے جزاے خیر نہ دے، خدا کی قسم میں صرف تیری وجہ سے قتل کیا جاؤں گا اور تیری وجہ سے مجھ سے یہ انتقام لیا جا رہا ہے ۔

معاویہ نے کہا :میرے ماں باپ تم پر قربان ہوجائیں !اگر میں تمہاری طرف لشکر بھیج دیتا اور ان لوگوں کو معلوم ہوجاتا تو یہ تمہارے قتل کرنے میں جلدی کرتے ، لیکن میرے ساتھ تیز دوڈنے والے گھوڑے ہیں میرے ساتھ اسی وقت باہر نکلو ، کسی کو بھی میرے آنے کی اطلاع نہیں ہے ، خدا کی قسم ہم تین دن میںشام کی سرحدکو عبور کرجائیں گے ۔

عثمان نے کہا : تم نے غلط مشورہ دیا ہے اور اس مشورہ کو قبول نہیں کیا ۔

معاویہ بہت جلدی وہاں سے واپس چلا گیا ۔

مسور مدینہ میں ذومروہ ( ١) کے راستہ سے اس وقت داخل ہوا ( جب عثمان، معاویہ کو سرزنش کررہاتھا اور اس کے عذر کو بھی قبول نہیں کررہا تھا) ۔

عثمان کا جب دوبارہ محاصرہ ہو ا تو پھردوبارہ مسور کومعاویہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی مدد کے لیے آئے، لیکن معاویہ نے کہا : عثمان نے ( ایک مدت ) نیکی کی تو خدا نے بھی اس کے ساتھ نیکی کی پھر جیسے ہی اس نے اپنے طور طریقہ کو بدل ڈالا تواللہ نے بھی اپنے طریقہ کو بدل دیا اور اس کے اوپر سختی کردی ۔

پھر اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا : تم نے عثمان کو اکیلا چھوڑ دیا اور جب اس کی جان خطرہ میں پڑ گئی تو مجھ سے کہتے ہو : اس سے موت کو دور کردو، میںاس وقت کچھ نہیں کرسکتا ۔ اس کے بعد معاویہ مجھے اپنے نزدیک ایک باغ میں لے گیا اور پھر کوئی میرے پاس نہیں آیا ،یہاں تک کہ عثمان قتل کردیا گیا (٢) ۔

نیز تاریخ یعقوبی میں آیا ہے : ( عثمان ) نے معاویہ کو( خط ) لکھا اور اس سے درخوست کی کہ بہت جلد اس کے پاس پہنچ جائے لہذا وہ بارہ ہزار افراد پرمشتمل ایک فوج کے ساتھ روانہ ہوا ۔

پھر معاویہ نے فوج سے کہا : تم یہیں شام کے قریب توقف کرو میں امیر المومنین کے پاس جاتا ہوں تاکہ ان کے صحیح حکم سے آگاہ ہوجاؤں ، پھر وہ عثمان کے پاس آیا ۔

عثمان نے پوچھا کتنے دن میں آئے ہو ؟

معاویہ نے کہا : میں تمہارا نظر یہ معلوم کرنے آیا ہوں، پھر ان کے پاس واپس جا کر ان کو تمہارے پاس لے آوں گا ۔

عثمان نے کہا : خدا کی قسم ایسا نہیں ہے بلکہ تویہ چاہتا ہے کہ میں قتل ہوجاوں تاکہ تم بعد میں یہ کہہ سکے کہ میں ان کے خون کا ولی ہوں ! واپس جاو اور ان کو میرے پاس لے آئو۔

معاویہ واپس چلا گیا ؛ لیکن عثمان کے پاس واپس لوٹ کر نہیں آیا یہاں تک کہ عثمان قتل ہوگیا( ٣) (٤) ۔

حوالہ جات:

(١) معجم البلدان : جلد٥ ،ص ١١٦ ۔

(٢) ۔ تاریخ الاسلام للذھبی : جلد ٣، ص ٤٥٠ ، تاریخ دمشق : جلد ٣٩ ، ص ٣٧٧، اور اسی کے مثل ۔

(٣) ۔ تاریخ الیعقوبی : جلد ٢، ص ١٧٥۔

( ٤) ۔ محمد محمد ی ری شہری ، دانش نامہ امیر المومنین ( علیہ السلام ) جلد ٣، ص ٣١٣۔

حضرت ابو ایوب انصاری کے بقول عثمان کا قاتل معاویہ بن ابوسفیان

کتاب الامامة والسیاسة میں معاویہ کو ابو ایوب کے خط میں ذکر ہوا ہے :

ہمیں عثمان کے قاتلوں سے کیا مطلب؟ جس نے عثمان کو منتظر اور شامیوں کو اس کی مدد کرنے سے باز رکھا ، وہ تو ہے اے معاویہ تو ہے ۔ جن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا ہے وہ انصار کے افراد نہیں تھے۔

حوالے ملاحظہ فرمائیں:

کتا ب الامامة والسیاسة : جلد ١، ص ١٣٠

شرح نھج البلاغہ : جلد ٨، ص ٤٤؛ واقعہ صفین : ص ٣٦٨

عثمان کے قتل کے بارے میں ابو طفیل کی معاویہ کے ساتھ بات چیت:

تاریخ الخلفاء میں ( ابو طفیل عامری بن واثلہ صحابی کے بارے میں ) آیا ہے: کہ

وہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا : کیا تو عثمان کا قتل کرنے والوں میں سے نہیں ہے ؟ تو اس نے کہا : نہیں لیکن وہ لوگ ہیں جو مدینہ نے میں اس وقت موجود تھے اور اس کی مدد نہیں کی۔

معاویہ نے کہا : عثمان کی مدد کرنے کو کس چیز نے تجھے منع کیا ؟

تو اس نے کہا : اس وجہ نے کہ مھاجرین و انصار نے ان کی کوئی مدد نہیں کی

تو معاویہ نے کہا : آگاہ ہوجاؤ ان کی گردنوں پر اس کی نصرت کا حق واجب تھا

تو اس نے کہا : ائے امیر المو منین تمہارے ساتھ تو خود شام کے لوگ موجود تھے پھر تم نے کیوں ان کی مدد نہیں کی ؟

معاویہ نے کہا : کیا میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے کھڑا ہوگیا ہوں یہ کافی نہیں ہے ؟

توابو طفیل نے مسکرانے کے بعد کہا :

تو اور عثمان شاعر کے اس شعر کی مانند جو ہو جو اس نے کہا :

لا ألفینکَ بَعد الموت تَندبُنُی ۔ وفی حَیاتی مازَوّدتَنی زاد

تجھے اپنی موت کے بعد گریہ کرتے ہوئے نہیں دیکھو گا ۔ کیونکہ میری زندگی میں تو تم نے کوئی ساتھ نہیں دیا۔

حوالے ملاحظہ فرمائیں:

تاریخ الخلفاء : ص ٢٣٩

کتاب الاستیعاب : جلد ٤، ص ٢٦٠، الرقم ٣٠٨٤

کتاب اُسد الغابہ : جلد ٦، ص ١٧٧، الرقم ٦٠٣٥

عثمان کی مدد نہ کرنے پر معاویہ کی پشیمانی:

تاب الفتوح میں ( معاویہ سے نقل ہوا ہے ) آیا ہے :کہ میں نے عثمان کی کمک نہیں کی اس میں بہت شرمندہ ہوں اس نے مجھ سے مدد طلب کی اور میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

کتاب الفتوح : جلد ٢، ص ٤٤٦

7- عثمان بن عفان کا اپنے جرائم کے اعتراف توبہ نامہ

عثمان کے گھر کا جب اصحابِ رسول نے محاصرہ کیا تو عثمان گھر سے باہر آیا اور منبر پر جا کر یہ اقرار کیا

ائے لوگوں ! خدا کی قسم ایسا نہیں ہے کہ جو اعتراضات تم نے کئے ہیں میں ان سے باخبر نہیں ہوں میں نے ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا ہے جس کی طرف میں متوجہ نہ ہوں یا جس سے میں اگاہ نہ ہوں

لیکن میرے نفس نے مجھے دھوکہ دیا اورسست کردیا اور مجھے غلط راہ پر لاکر کھڑا کردیا

اس نصیحت کو قبول کرنے والا میں سب سے پہلا شخص ہوں، جو میں نے کیا ہے میں اس کے لیے استغفار کروں گا اور خدا کی بارگاہ میں دوبارہ حاپلٹ جا وں گا کیونکہ مجھ جیسے لوگ رک جاتے ہیں اور واپس پلٹ آتے ہیں ،اور جیسے ہی میں منبر سے نیچے آو ں بزرگ حضرات میرے پاس آئیں اور اپنے رای مشورں سے مجھے خبر دار کریں خدا کی قسم اگر حق مجھے غلامی کی طرف لے جائے گا تو میں غلام کی طرح پیش آونگا اگر مجھے غلام کی طرح ذلیل کیا جائے تو میں اس کو بھی برداشت کرونگا۔

تاریخ الطبری : ج٤ ص ٣٦٠

البدایہ و النھایہ : ج٧ص ١٧٢

الکامل فی التاریخ : ج٢ ص ٢٨٤

الجمل : ص ١٩١

بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین علی (ع) اور اسی طرح امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) نے، جب عثمان اپنے غلط کاموں کی وجہ سے اصحاب کے محاصرے میں تھا، حملہ کرنے والوں سے مقابلہ اور اسکی حمایت و طرفداری کی تھی اور عثمان تک پینے کا پانی بھی پہنچایا تھا۔

اب آخری حصے میں امام علیؑ پر بات کر کے ناصبیوں کا منہ بند کرتا ہوں تاکہ چار یار کا نعرہ لگاتے ہوئے شرم محسوس کریں-

8- قتل عثمان پر امام علیؑ کا موقف و عمل

ابن شبہ نميری نے کتاب تاريخ المدينۃ میں لکھا ہے:

حَدَّثَنَا مُوسَي بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قال: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ (ص) وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حِينَ حُصِرَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُمِلَتْ حَتَّي وُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِدْرِهَا وَهُوَ عَلَي الْمِنْبَرِ، فَقَالَتْ: ” أَجِرْ لِي مَنْ فِي الدَّارِ “. قَالَ: نَعَمْ إِلا نَعْثَلا وَشَقِيًّا، قَالَتْ: ” فَوَاللَّهِ مَا حَاجَتِي إِلا عُثْمَانُ، وَسَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ “. قَالَ: مَا إِلَيْهِمَا سَبِيلٌ. قَالَتْ: ” مَلَكْتَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَسْجِحْ “، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا أَمَرَكِ اللَّهُ وَلا رَسُولُهُ.

ماجشون نے روايت نقل کی ہے کہ ام حبیبہ زوجہ رسول خدا (ص) جب عثمان محاصرے میں تھا۔ اپنے حجاب میں علی (ع) کے پاس آئی، اس حالت میں کہ وہ حضرت منبر پر بیٹھے تھے، اور کہا: جو عثمان کے گھر میں افراد ہیں، انھیں میری پناہ میں قرار دیں، حضرت نے فرمایا: نعثل (عثمان) اور شقی (سعید ابن العاص) کے علاوہ۔

ام حبيبہ نے کہا: در اصل میں ان دونوں کو ہی اپنی پناہ میں لینا چاہتی ہوں، حضرت نے فرمایا: ان دو کو تم آزاد نہیں کرا سکتی، ام حبیبہ نے کہا تم ابو طالب کے بیٹے ہو اب تم غالب آ گئے ہو تو انکو معاف کر دو، حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم، خداوند اور اسکے رسول نے تم کو ہرگز ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دیا۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص219 ح 2019، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت۔

بحث سندی:

اس روایت کی سند مکمل طور پر صحیح اور اسکے تمام راوی ثقہ (معتبر) ہیں:

ابو سلمۃ، موسی ا بن اسماعيل:

یہ محمد ابن اسماعيل بخاری کا استاد ہے، ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

موسي بن إسماعيل أبو سلمة التبوذكي الحافظ عن شعبة وهمام وخلق وعنه البخاري وأبو داود وابن الضريس وابن أبي عاصم سبطه قال عباس الدوري كتبنا عنه خمسة وثلاثين ألف حديث قلت ثقة ثبت مات 223 ع

موسی ابن اسماعيل، حافظ ( جسکو ایک لاکھ احادیث حفظ ہوں) تھا، اس نے شعبہ، ھمام سے روایت نقل کی ہے اور بخاری ابوداود نے حدیث کو اس سے سنا ہے، عباس دوری نے کہا ہے: میں نے اس سے 35 ہزار احادیث کو لکھا ہے، میں (ذہبی) کہتا ہوں کہ وہ ثقہ اور مورد اعتماد ہے۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفي 748 هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج2 ص301، رقم: 5677 ،

يوسف ابن يعقوب:

یہ کتاب بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ہے، ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

يوسف بن يعقوب بن أبي سلمة الماجشون أبو سلمة المدني عن أبيه والمقبري والزهري وعنه أحمد ومسدد ثقة مات 185 خ م ت س ق .

يوسف ابن يعقوب نے اپنے والد، مقبری اور زہری سے روایت کو سنا ہے اور احمد ابن حنبل نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے، وہ ثقہ راوی ہے۔

الكاشف ج2 ص402، رقم: 6459

يعقوب ابن ابی سلمۃ:

یہ بھی کتاب صحيح مسلم، ابوداود، ترمذی اور ابن ماجہ کے راویوں میں سے ہے، ابن حجر عسقلانی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

يعقوب بن أبي سلمة الماجشون التيمي مولاهم أبو يوسف المدني صدوق من الرابعة مات بعد العشرين م د ت ق .

يعقوب ابن ابی سلمۃ روایت نقل کرنے میں سچا (معتبر) تھا۔

تقريب التهذيب ج1 ص608، رقم: 7819

اس روایت میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے عثمان کو نعثل کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہ وہ لقب ہے کہ جو اکثر اصحاب عثمان کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔

نعثل ایک یہودی شخص تھا کہ جو لمبے قد، لمبی داڑھی، خوفناک چہرے اور بہت احمق تھا، جب بھی کوئی کسی کا مذاق اڑانا چاہتا تھا تو وہ اسے نعثل کہا کرتا تھا۔

کتب اہل سنت میں روایات موجود ہیں کہ جو بتاتی ہیں کہ جب عثمان نے امیر المؤمنین علی (ع) پر تہمت لگائی کہ آپ نے میرے والی (حاکم) کو خط لکھا ہے تو ان حضرت نے غصے میں قسم کھائی کہ میرا اور تیرا سامنا روز قیامت خدا کی بارگاہ میں ہو گا اور اس وقت تک ہرگز میں تمہارا دفاع نہیں کروں گا۔

ابن شبہ نميری نے کتاب تاريخ المدينہ میں اس بارے میں دو روايت کو نقل کیا ہے:

روايت اول:

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحُبَابِ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ مِنْ أَمْرِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا كَانَ قَدِمَ قَوْمٌ مِنْ مِصْرَ مَعَهُمْ صَحِيفَةٌ صَغِيرَةُ الطَّيِّ، فَأَتَوْا عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ غَيَّرَ وَبَدَّلَ، وَلَمْ يَسِرْ مَسِيرَةَ صَاحِبَيْهِ، وَ كَتَبَ هَذَا الْكِتَابَ إِلَي عَامِلِهِ بِمِصْرَ، أَنْ خُذْ مَالَ فُلانٍ وَاقْتُلْ فُلانًا وَسَيِّرْ فُلانًا، فَأَخَذَ عَلِيٌّ الصَّحِيفَةَ فَأَدْخَلَهَا عَلَي عُثْمَانَ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذَا الْكِتَابَ؟ فَقَالَ: ” إِنِّي لأَعْرِفُ الْخَاتَمَ “، فَقَالَ: اكْسِرْهَا فَكَسَرَهَا.

فَلَمَّا قَرَأَهَا، قَالَ: ” لَعَنَ اللَّهُ مَنْ كَتَبَهُ وَمَنْ أَمْلاهُ “.

فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَتَتَّهِمُ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ؟ قَالَ: ” نَعَمْ “.

قَالَ: مَنْ تَتَّهِمُ؟ قَالَ: ” أَنْتَ أَوَّلُ مَنْ أَتَّهِمُ “، قَالَ: فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَامَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا أُعِينُكَ وَلا أُعِينُ عَلَيْكَ حَتَّي أَلْتَقِيَ أَنَا وَأَنْتَ عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

عبد الملک ابن ہارون نے اپنے والد اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب عثمان کے لیے وہ حوادث پیش آئے تھے تو مصر سے چند لوگ اپنے ساتھ ایک خط لیے مدینہ آئے۔ مدینہ آ کر وہ علی (ع) کے پاس گئے اور کہا: اس مرد (عثمان) نے (سنت پیغمبر کو) تبدیل کر دیا ہے اور اپنے دونوں دوستوں (ابوبکر و عمر) کے راستے سے ہٹ گیا ہے، اس نے یہ خط مصر میں اپنے والی کو لکھا ہے کہ فلاں سے اسکا مال لے لو، فلاں کو قتل کر دو اور فلاں کو مصر سے جلا وطن کر دو وغیرہ وغیرہ۔

علی (ع) وہ خط لے کر عثمان کے پاس گئے اور اس سے کہا: تمہیں اس خط کے بارے میں کچھ پتا ہے ؟ عثمان نے کہا مجھے اسکی مہر کے بارے میں پتا ہے، پھر کہا اس خط کو کھولو، جب کھولنے کے اسے پڑھا گیا تو اس نے کہا: خداوند کی لعنت ہو اس پر جس نے لکھا ہے اور جس نے لکھوایا ہے۔

پس علی (ع) نے اس سے کہا: کیا تمہیں اپنے خاندان کے کسی شخص پر شک ہے ؟ اس نے کہا: ہاں، علی (ع) نے پوچھا وہ کون ہے ؟ عثمان نے کہا: وہ تم ہو ! راوی کہتا ہے: علی (ع) غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور کہا:

خدا کی قسم میں تمہاری نہ کوئی مدد کروں گا اور نہ ہی تمہارے خلاف کوئی کام کروں گا، یہاں تک کہ میری اور تمہاری خداوند کی بارگاہ میں ملاقات ہو جائے۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص212، ح2008، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت۔

روايت دوم:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْوَقَّاصِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَجَعَ أَهْلُ مِصْرَ إِلَي الْمَدِينَةِ قَبْلَ أَنْ يَصِلُوا إِلَي بِلادِهِمْ، فَنَزَلُوا ذَا الْمَرْوَةِ فِي آخِرِ شَوَّالٍ، وَبَعَثُوا إِلَي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ أَعْتَبَنَا، ثُمَّ كَتَبَ يَأْمُرُ بِقَتْلِنَا، وَبَعَثُوا بِالْكِتَابِ إِلَي عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَخَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَي عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْكِتَابِ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عُثْمَانُ؟ فَقَالَ: ” الْخَطُّ خَطُّ كَاتِبِي، وَالْخَاتَمُ خَاتَمِي، وَلا وَاللَّهِ مَا أَمَرْتُ وَلا عَلِمْتُ “.

قَالَ: ” أَتَّهِمُكَ وَكَاتِبِي “.

فَغَضِبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا أَرُدُّ عَنْكَ أَحَدًا أَبَدًا

ابراہيم ابن محمد ابن سعد نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ مصر کے لوگ مدینہ سے واپس آ گئے، وہ لوگ اپنے اپنے شہروں میں پہنچنے سے پہلے، ماہ شوال کے آخر میں ذا المروہ کے مقام پر گئے، انھوں نے کسی شخص کو علی (ع) کے پاس بھیجا اور کہا کہ عثمان پہلے تو ہماری سرزنش کیا کرتا تھا اور اب خط لکھ کر ہمارے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے، انھوں نے خط کو علی (ع) کے لیے بھیجا۔ علی (ع) وہ خط لے کر عثمان کے پاس گئے اور کہا: اے عثمان یہ کیا ہے ؟ عثمان نے کہا: یہ میرا خط ہے اور میں نے لکھا ہے، لیکن خدا کی قسم میں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا اور اسکا مجھے کوئی پتا نہیں ہے پھر اس نے علی (ع) سے کہا: میں تمہیں اور اپنے کاتب کو متہم کرتا ہوں، پس علی (ع) خشمگین ہو گئے اور فرمایا: خدا کی قسم میں کسی کو بھی تجھ تک پہنچنے سے نہیں رکوں گا، (یعنی تم پر ہونے والے حملے میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔

النميري البصري، ابوزيد عمر بن شبة (متوفي262هـ)، تاريخ المدينة المنورة، ج 2، ص212، ح2009، تحقيق علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت،

اسی طرح عبد الرزاق صنعانی نے ایک دوسری روايت کو اپنی کتاب امالی میں نقل کیا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) اور عثمان نے ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں تھیں:

أنا مَعْمَرٌ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: ” شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَبَّا بِسِبَابٍ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا اسْتَبَّ بِمِثْلِهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُحَدِّثًا بِهِ أَحَدًا لَحَدَّثْتُكَ بِهِ، قَالَ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَيْهِمَا يَوْمًا آخَرَ فَرَأَيْتُهُمَا جَالِسَيْنِ فِي الْمَسْجِدِ، أَحَدُهُمَا يَضْحَكُ إِلَي الآخَرِ.

سعيد ابن مسيب سے روايت ہوئی ہے کہ میں نے ایک دن علی (ع) اور عثمان کو دیکھا کہ ایسی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے کہ آج تک میں نے ویسی گالیاں نہیں سنی تھیں، پھر کہا لیکن ایک دوسرے دن میں نے ان دونوں کو دیکھا کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہنس رہے تھے۔

الصنعاني، ابوبكر عبد الرزاق بن همام (متوفي211هـ)، الأمالي في آثار الصحابة، ج 1، ص70، ح91 ، تحقيق : مجدي السيد إبراهيم ، ناشر : مكتبة القرآن – القاهرة .

امير المؤمنین علی، امام حسن اور امام حسين عليہم السلام نے عثمان اور اسکے گھر کا کسی قسم کا کوئی دفاع نہیں کیا تھا۔ بعض اہل سنت کے علماء بنی امیہ سے اپنی وفاداری اور اسلام سے اپنی خیانت کو ثابت کرنے کے لیے جعلی اور جھوٹی روایات گھڑتے رہتے ہیں۔

اگر فرض بھی کریں کہ وہ اسکے گھر کے سامنے حاضر ہوئے تھے تو وہ اسکے گھر میں موجود بے گناہ افراد کی جان کی بچانے کے لیے حاضر ہوئے تھے نہ کہ عثمان کی جان بچانے کے لیے۔ اہل سنت اور وہابی ان غلط قصے کہانیوں سے رسول خدا (ص) کے اہل بیت اور ظالم، فاسق اور غاصب صحابہ کے درمیان تعلقات کے اچھا ہونے کو ہرگز ثابت نہیں کر سکتے۔

والسلام علیکم، احقر

#ابوعبداللہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *