بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انجینئر محمد علی مرزا نے اپنا مخصوص نعرہ لگاتے ہوئے ” نہ میں بابی نہ میں وہابی، میں ہوں مسلم علمی کتابی ” اپنی علمی و تحقیقی مجلس نمبر 06 میں بیان کیا تھا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے جس میں حضرت حذیفہ یمانی کو رسول نے ان منافقین کے نام بتائے تھے جنہوں نے تبوک سے واپسی پر عقبہ وادی میں رسول اکرم کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی اور نہ صرف سازش رچی بلکہ عملی طور پر ڈھاٹیں باندھ کر یہ قبیح ترین عمل انجام بھی دیا تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے، جن میں سے اکثر کی موت دبیلہ سے ہونے کی پیش گوئی بھی تھی۔۔
لیکن انجینئر صاحب نے پھر وہی کیا جو وہ اور ان جیسے ماڈرن محقق کرتے ہیں یعنی آدھی بات کر کے بات ختم کر دینا ۔۔ تبھی میں نے انجینئر صاحب سے کئی بار کہا کہ آپ اپنا نعرہ تھوڑا چینج کر لیں جو اس طرح ہو ؛ نہ میں بابی نہ میں وہابی ۔۔ میں ہوں پکا دوغلہ نفاقی ۔
قارئین کرام ۔۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر ان صاحب نے ان منافقین کے نام بتا دیئے تو پھر یہ اپنا چورن کیسے بیچیں گے ؟؟ پھر ان کے پاس بچے گا ہی کیا؟؟ یہ بچارے پھر کس کو صدیق اکبر، فاروق اعظم یا غنی کہہ کر پکاریں گے؟؟
خیر میں بغوبی ان جیسے افراد کی مجبوری کو سمجھتا ہوں کیونکہ یہی سب منافقت بعدِ شھادتِ رسول اکرم سے اب تک چلتی آ رہی ہے ۔ لیکن خدا کا لاکھ شکر ہے کہ ہم علی ولی کے ماننے والے اس منافقت سے بالکل بَری ہیں تبھی عشقِ اہل بیت کے جرم میں آج تک قتل ہوتے آئے ہیں ۔
کافی مومنین و مومنات کا اصرار تھا کہ ابوعبداللہ ذرا اُن منافقین کی کلی تو کھولیں جس پر انجینئر صاحب نے آدھی بات کی ہے اور نام نہیں بتائے، ذرا ان کے چہروں پر چپکا صحابیت کا میک اپ تو دھوئیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ وہ کون بدبخت تھے جو اپنے نبی کو ہی قتل کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔۔
تمہید کافی ہوئی ۔۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ یہ تحریر پچھلی تحاریر کی طرح زیادہ طویل نہ ہو۔۔ آگے مولا وارث کے قلم کب تک چلتا ہے۔۔
میں چاہتا ہوں کہ پہلے تھوڑا سا اس واقعہ کو بیان کر دوں جس کی بنیاد پر یہ حدیث امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کی تاکہ وہ مومنین و مومنات بھی استفادہ کر سکیں جو اس تاریخی واقعہ سے واقف نہیں ۔
قارئیں کرام ۔۔ اصحاب عقبہ کہ جن کے بارے میں رسول اللہ نے حدیث ارشاد فرمائی تھی وہ لوگ تھے جنہوں نے تبوک کی جانب عزیمت سے قبل، مدینہ میں اسلام اور رسول خدا(ص) کے خلاف کیے اقدامات میں ناکام ہونے کے بعد ، تبوک سے واپسی پر رسول خدا(ص) کو رات کی تاریکی میں قتل کرنے کی سازش تیار کی اور جس وقت آپ کی اونٹنی راستے میں حائل ایک گھاٹی سے گذر رہی تھی نقاب پوش سازشیوں نے اس کو ہنکانے اور آپ کو اونچائی سے کھائی میں گرانے کا فیصلہ کیا۔
اسی دوران جبکہ وہ رسول خدا(ص) کی اونٹنی کے قریب پہنچے ـ اللہ نے آپ کو سازش سے آگاہ کر دیا اور رسول خدا نے حذیفہ بن یمان سے جو اونٹنی کو ہانک رہے تھے ـ
فرمایا: ان افراد کو یہاں سے دور کرو اور کہو کہ اگر پیچھے نہ ہٹیں تو آپ اونچی آواز سے انہیں نام، باپ کے نام اور ان کے قبیلوں کے نام سے پکاریں گے۔
ناکام و نامراد منافقین حذیفہ یمانی کی آواز سن کر فرار ہوئے اور اپنی سپاہ میں گھل مل گئے۔حذیفہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے، ان کے باپوں اور قبائل کے ناموں کو جانتے تھے۔ اسی بنا پر وہ “صاحب سرّ النبي” کے لقب سے مشہور ہوئے یعنی نبی کے راز دان ۔ جبکہ عمارِ یاسر کو بھی آپ(ص) نے ان کے نام بتا دیئے تھے جو اس شب رسول اکرم کے ہمراہ تھے۔
تو قارئین یہ تھا اس حدیث کا مختصر شانِ ارشاد جس میں رسول اکرم نے منافقین کو بے نقاب کیا تھا جو صحیح مسلم میں درج ہے۔
اب مسلم کی وہ حدیث ملاحظہ فرمائیں
امام مسلم اپنی صحیح کی کتاب: صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ کے باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام میں موجود حدیث جس کا انٹرنیشل نمبر 2779 جس کی ترقیم فوادعبدالباقی نے کی ہے کچھ اس طرح ہے؛
عربی متن:
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شعبة بن الحجاج ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن قيس ، قال: قلت لعمار ارايتم صنيعكم هذا الذي صنعتم في امر علي ارايا رايتموه او شيئا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، ولكن حذيفة اخبرني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ” في اصحابي اثنا عشر منافقا، فيهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة واربعة “، لم احفظ ما قال شعبة فيهم.
اردو ترجمہ:
قیس سے روایت ہے، میں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقدمہ میں (یعنی ان کا ساتھ دیا اور لڑے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے) یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا . سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں سے آٹھ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .“ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل) اور چار کے باب میں اسود یہ کہتا ہے جو راوی ہے اس حدیث کا کہ مجھے یاد نہ رہا شعبہ نے کیا کہا۔
(حوالہ : صحیح مسلم، کتاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ؛ باب نمبر1 ، حدیث نمبر 7035)
اب یہاں سند کی بحث ہی فضول ہے کیونکہ اہل سنت علماء کا اجماع ہے کہ قرآن کے بعد سب صحیح کتابیں 6 ہیں جنہیں صحیح ستہ کہا جاتا ہے اور ان 6 کتابوں میں سے مزید دو “صحیحین” ہیں یعنی صحیح ترین کتابیں جن میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم شامل ہیں۔
اور صحیح مسلم میں امام مسلم نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ وہ اپنی صحیح میں صرف وہ حدیث بیان کر یں گے جس کو کم از کم دو ثقہ تابعین نے دو صحابیوں سے روایت کیا ہو اور یہی شرط تمام طبقات تابعین و تبع تابعین میں ملحوظ رکھی ہے یہاں تک کہ سلسلہ اسناد خود اُن (مسلم ) تک ختم ہو۔ دوسرے یہ کہ راویوں کے اوصاف میں صرف عدالت پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ شرائطِ شھادت کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔
تو قارئین کرام یہ تھی وہ حدیث جس میں واضح طور پر رسول اکرم نے ” في اصحابي اثنا عشر منافقا ” ارشاد فرمایا یعنی میرے “اصحاب” میں سے بارہ منافق ہیں تو یہاں ان سب ناصبیوں کو یہ پھکی بھی مل گئی کہ تمہارے دعویٰ کے مطابق ہر صحابی نہ ہی عادل ہے اور نہ ہی رضی اللہ عنہا کیونکہ تم لوگ اپنے رسول سے زیادہ ان کے اصحاب کے بارے میں نہیں جانتے جس میں رسول خود فرما رہے ہیں فی اصحابی ۔
محض پیغمبر اکرم کے ساتھ بیٹھنے یا حضرت کو دیکھنے سے کوئی صحابی نہیں بن سکتا جیسا کہ اہلسنت کا عقیدہ ہے بلکہ صحابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایمان اور یقین پیغمبر اکرم کی رسالت و نبوت پر پختہ ہو اور پیغمبر اکرم جس چیز کا حکم دیں اس کو قبول کرے اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جائے اور اسی یقین وایمان واطاعت کے عالم میں وہ دنیا سے گیا ہو اس قسم کے صحابی کو شیعہ مانتے اور اہلبیت رسول کے بعد ان کااحترام کرتے ہیں۔
اب یہ دعویٰ کرنا کہ سب کے سب اصحاب لائقِ اطاعت ہیں کیونکہ وہ عادل ہیں تو یہ صریحاً ارشادِ رسول کی توہین شمار ہوگی !
اب آگے بڑھتا ہوں اور آپ کو دکھاتا ہوں کہ یہی حدیث صحیح مسلم کے علاوہ کن کن اہل سنت منابع میں درج ہے تاکہ اس سے فرار ممکن نہ ہو سکے پھر اُس کے بعد ان منافقین کے نام پیش کروں گا جنہوں نے صحابیت کا لبادہ اوڑ کر اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی کوشش کی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔۔
چلیں جی مزید حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
1- صحیح مسلم کی دوسری حدیث :
سیدنا ابوطفیل کہتے ہیں کہ عقبہ کے لوگوں میں سے ایک شخص اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ جھگڑا تھا جیسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ بولا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اصحاب عقبہ کتنے تھے؟ (اس سے مراد وہ منافقین ہیں جو غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا) لوگوں نے حذیفہ سے کہا جب وہ پوچھتا ہے تو اس کو بتا دو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ آدمی تھے۔ اگر تو بھی ان میں سے ہے تو وہ پندرہ تھے۔ اور میں قسم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا اور آخرت میں دشمن تھے اور باقی تینوں نے یہ عذر کیا (جب ان سے پوچھا گیا اور ملامت کی گئی) کہ ہم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی (کہ عقبہ کے راستے سے نہ آؤ) کی آواز بھی نہیں سنی اور نہ اس قوم کے ارادہ کی ہم خبر رکھتے ہیں۔ اور (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پتھریلی زمین میں تھے۔ پھر چلے اور فرمایا کہ (اگلے پڑاؤ پر) پانی تھوڑا ہے، تو مجھ سے پہلے کوئی آدمی پانی پر نہ جائے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے تو کچھ (منافق) لوگ وہاں پہنچ چکے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن ان پر لعنت فرمائی۔
حوالہ : صحیح مسلم، کتاب: منافقین کے متعلق، باب : لیلۃالعقبہ میں منافقین اور ان کی تعداد کے متعلق، حدیث نمبر : 1941
2- وروى مسلم في صحيحه عن الوليد بن جميع عن أبي الطفيل:
قال: ” كان بين رجل من أهل العقبة وبين حذيفة بعض ما يكون بين الناس، فقال: أنشدك بالله، كم كان أصحاب العقبة؟
قال: فقال له القوم أخبره إذ سألك؟
فقال: كنا نخبر أنهم أربعة عشر، فإن كنت منهم فقد كان القوم خمسة عشر
حوالہ : تفسير ابن كثير، جلد 2، صفحہ 605
3- وَعَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ – رضي الله عنه -: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ أَرَأَيْتُمْ قِتَالَكُمْ هَذَا؟ أَرَأيًا رَأَيْتُمُوهُ؟ – فَإِنَّ الرَّأيَ يُخْطِئُ وَيُصِيبُ – أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم -؟ , فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً , وَلَكِنَّ حُذَيْفَةُ – رضي الله عنه – أَخْبَرَنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – قَالَ: ” إِنَّ فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا , لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ سِرَاجٌ مِنْ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ ” , وَأَرْبَعَةٌ لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ.
حوالہ : الجامع الصحيح للسنن والمسانيد، جلد 4، صفحہ 166 – المكتبة الشاملة الحديثة
4- حَدِيثٌ (عه حم) : ” فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا. . . ” الْحَدِيثَ.
كتاب إتحاف المهرة لابن حجر، من مسند حذيفة بن اليمان ، جلد 4، صفحہ 260، حدیث 4228 ، المكتبة الشاملة الحديثة
5- حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِيمَا كَانَ مِنْ أَمْرِ عَلِيٍّ رَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ، أَمْ شَيْئًا عَهِدَ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: لَمْ يَعْهَدْ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنَّ حُذَيْفَةَ أَخْبَرَنِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «§فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، مِنْهُمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ»
حوالہ: مسند أحمد مخرجا، جلد 38، صفحہ 345، حدیث 23319- المكتبة الشاملة الحديثة
6- أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، ح وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرُّوذْبَارِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَمَّادٍ الْعَسْكَرِيُّ، بِبَغْدَادَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْفَحَّامُ، أَخْبَرَنَا شَاذَانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا فِيمَا كَانَ مِنْ أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنَّ حُذَيْفَةَ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «§فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، مِنْهُمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخَيَّاطِ» – رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ شَاذَانَ
حوالہ : كتاب دلائل النبوة للبيهقي مخرجا – باب رجوع النبي صلى الله عليه وسلم من تبوك وأمره بهدم مسجد الضرار ومكر المنافقين به في الطريق وعصمة الله تعالى إياه وإطلاعه عليه وما ظهر في ذلك من آثار النبوة ، جلد 5 ، صفحہ 261 – المكتبة الشاملة الحديثة
7- فى أصحابى اثنا عشر منافقا منهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل فى سم الخياط (أحمد، ومسلم عن حذيفة)
حوالہ : كتاب جامع الأحاديث السيوطي ، جلد 14، صفحہ 171، حدیث 14753 – المكتبة الشاملة الحديثة
8- في أصحابي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط
حوالہ: تفسير ابن أبي حاتم محققا ، جلد 12، صفحہ 508 – المكتبة الشاملة الحديثة
9- وجاءت آيات هذه السورة في سياقاتِها فاضحة للمنافقين، وفي صحيح الإمام مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (في أصحابي اثنا عشر منافقاً، لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة، سراج من نار تظهر بين أكتافهم حتى ينجم في صدورهم)
حوالہ: كتاب الإصابة في الذب عن الصحابة، جلد 1، صفحہ 56 – المكتبة الشاملة الحديثة
10- إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه قَالَ: ” فِي أَصْحَابِي اثَنَا عَشَرَ مُنَافِقًا مِنْهُمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سم الْخياط “.
حوالہ: كتاب السيرة النبوية لابن كثير، جلد 4، صفحہ 37- المكتبة الشاملة الحديثة
11-حذيفة/ في أصحابي اثنا عشر منافقا منهم ثمانية لا يدخلون..
حوالہ : كتاب سير أعلام النبلاء، جلد 18، صفحہ 123 – المكتبة الشاملة الحديثة
12- 16836 – وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ شَاذَانُ، ثنا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صُنْعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنَّ حُذَيْفَةَ أَخْبَرَنِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” §فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، مِنْهُمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيهُمُ الدُّبَيْلَةُ “، وَأَرْبَعَةٌ لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ، وَرَوَاهُ غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ: ” ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيهُمُ الدُّبَيْلَةُ، سِرَاجٌ مِنَ النَّارِ يَظْهَرُ فِي أَكْتَافِهِمْ حَتَّى يَنْجُمَ مِنْ صُدُورِهِمْ ” قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللهُ: فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: فَلَعَلَّ مَنْ سَمَّيْتَ لَمْ يُظْهِرْ شِرْكًا سَمِعهُ مِنْهُ آدَمِيٌّ، وَإِنَّمَا أَخْبَرَ اللهُ عَنْ أَسْرَارِهِمْ قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللهُ: فَقَدْ سُمِعَ مِنْ عَدَدٍ مِنْهُمُ الشِّرْكُ، وَشُهِدَ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنْهُمْ مَنْ جَحَدَهُ وَشَهِدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا أَظْهَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَقَرَّ بِمَا شُهِدَ بِهِ عَلَيْهِ وَقَالَ: تُبْتُ إِلَى اللهِ وَشَهِدَ شَهَادَةَ الْحَقِّ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا أَظْهَرَ
حوالہ: السنن الكبرى للبيهقي، جلد 8، صفحہ 344، حدیث 16836، باب ما يحرم به الدم من الإسلام زنديقا كان أو غيره – المكتبة الشاملة الحديثة
جی قارئین یہ میں نے 12 حوالے اپنے اثنا عشری مومن ہونے کے صدقے میں اثنا عشر منافقین پر وار دیئے جبکہ اگر میں چاہوں تو پنجتن 5، امام 12، معصوم 14 اور شہید 72 کی نیت سے 72 حوالے بھی پیش کر سکتا ہوں ۔
خیر یہاں جو 12 اہل سنت حوالے پیش کئے ہیں وہ تمام صحیح السند صحیحات، مسانید، تاریخ اور تفاسیرِ اہل سنت سے ہیں جن کا عربی متن مع مکمل حوالہ و ناشر کے پیش کر دیا ہے، جسے کوئی ناصبی چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا !
چلیں جی اب آگے بڑھتے ہیں اور سب سے پہلے یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان 12 منافق افراد میں کون کون سے نام نہاد صحابی کتب اہل سنت سے ثابت ہیں اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ دبیلہ بھائی کے ہاتھوں واصل جہنم کون کون ہوا۔
تو قارئین کرام ۔ جب بھی کسی اہل سنت عالم یا محقق کے سامنے یہ بارہ منافقین والی حدیث پیش کر کے جواب طلبی کی جائے تو وہ اس کے رد میں اپنے ایک عالم امام ابن حزم اندلسی کی کتاب المحلى بالآثار پیش کر کے اس کو جھٹلا دیتا ہے ۔
میں نے کافی دقت کی کہ آخر ان ناصبی ملاؤں کو کیسے گھیر کر مارا جائے تو کرمِ سیدہؑ شاملِ حال ہوا اور میں نے سوچا کہ سب سے پہلے میں امام ابن حزم کی فضیلت اہل سنت علماء سے پیش کروں گا تاکہ عوام جان سکے کہ جسے یہ ناصبی اپنے دفاع میں لا رہے ہیں اس کا اہل سنت مکتب میں کتنا اعلیٰ و عرفہ مقام ہے تاکہ جو بات وہ اپنی کتاب المحلی میں لکھیں اس کا ہر لفظ سچا ہو تاکہ مزید کسی بحث اور حوالہ جات کی ضرورت ہی نہ رہے۔
جب ابن حزم کی فضیلت ثابت ہو جائے گی پھر اس کی پیش کی گئی تحقیق، جو یہ ناصبی 12 منافقین کے رد میں پیش کرتے ہیں اس پر رجالی بحث کر کے ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے !
چلیں جی اب ملاحظہ فرمائیں وہ ناقص دفاع جو کُلی طور پر ہر ناصبی مُلا اس حدیث کے رد میں پیش کرتا ہے ۔۔ لیکن سب سے پہلے ابن حزم پر جلدی جلدی بات کرنے کے بعد۔۔۔
امام ابن حزم فقہ و اصول اور علم حدیث میں اپنی طرز کے بے مثال عالم ہیں ،آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے شہرت پائی وہ “المحلی” اور” الاحکام فی اصول الاحکام” ہیں. المحلی فقہ و حدیث کی جامع کتاب ہے اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے . یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں.
اہل سنت علماء کہتے ہیں کہ اگر ابن حزم کی یہ دونوں کتابیں المحلی اور الاحکام نہ ہوتیں تو مسلکِ اہل سنت کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔
حوالہ : اصول فقہ، بک نمبر -22- شریعہ اکیڈمی – فصل مسجد اسلام آباد
علامہ حمیدی ابن حزم کے کا ذکر یوں کرتے ہیں:
“کان حافظاً عالماً بعلوم الحدیث و فقهه، مستنبطاً للأحکام من الکتاب والسنة، متفننا في علوم جمة، عاملاً بعلمه، زاهدا في الدنیا بعد الریاسة التی کانت له والابیه من قبله من الوزارة و تدبیر الممالك، متواضعاً ذا فضائل جمة، وتألیف کثیرۃ في کل ما تحقق به في العلوم، وجمع من الکتب في علم الأحادیث والمصنفات والمسندات شیئاً کثیراً و سمع سماعا جما، وما رأینا مثله رحمه اللّٰه تعالى فیما اجتمع له مع الزکاۃ و سرعة الحفظ و کرم النفس والتدین.”
ابن حزم علوم حدیث و فقہ کے غواص تھے۔کتاب و سنت سے احکام اخذ کرتے اور علوم و فنون کے ماہر تھے۔اپنے علم پر عامل،ریاست و وزارت کے بعد زہد اختیار کرنے والےتھے۔آپ کی تصنیفات بہت زیادہ ہیں، علم حدیث میں آپ نے بہت کچھ جمع کیا۔ہم نے ان جیسا شخص پھر نہیں دیکھا جس میں اس حد تک دماغی چستی،حافظہ،عزت نفس اوردین داری کی صفات یکجا ہو گئی ہوں۔
حوالہ : ابن ماکولا،علي بن نصر بن هبة الله، الإکمال في رفع الارتیاب عن المؤلف والمختلف في الاسماء والکنی والأنساب،حیدرآباد، جلد 2، ص451
ابن خلکان نے لکھا ہے کہ ابن حزم حدیث کےمعارف و علوم کے حافظ اور عالم تھے ؛کتاب و سنت سے استنباط احکام کے ماہر تھے۔وہ پہلے شافعی المذہب تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے اہل ظاہر کا مذہب اپنا لیا۔ وہ جملہ علوم میں مہارت رکھتےتھے ۔وہ اپنے علم پر عامل اور موروثی جاہ و منصب کے علی الرغم زاہدِ دنیا،متواضع، فضائل واخلاق سے آراستہ، مصنفِ کتبِ کثیرہ تھے۔
حوالہ : وفیات الأعیان، جلد 3، صفحہ 325
ابو حامد غزالی (م505ھ) لکھتے ہیں کہ میں نے اسمائے الٰہی سے متعلق ابنِ حزم کی تصنیف کامطالعہ کیا جو ان کے حافظے کی مضبوطی اور ذہن کی تیزی پر دلالت کناں تھی۔
حوالہ : طبقات علماء الحدیث، جلد3، صفحہ 345
عزالدین بن عبدالسلام (م660ھ) کاکہنا ہےکہ میں نےکتبِ اسلامیہ میں المحلی اور ابن قدامہ کی المغنی کے مانند کوئی اور کتاب نہیں دیکھی۔
حوالہ : تذکرة الحفاظ، جلد 3، صفحہ 1150
ابن تیمیہ(م728ھ) ابن حزم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ دین و ایمان اور کثرت و وسعتِ علم کے حامل تھے جس کا انکار معاند شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ان کی کتابوں میں اہلِ علم کے اقوال پر اطلاع، احوال کی معرفت، شعائرِ اسلامیہ اور رسالتِ محمدیہ کی تعظیم کے ایسے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان کے سوا کسی دوسرے میں نظر نہیں آتے۔
حوالہ : مجموع الفتاوی، جلد 4 ،صفحہ 20
حافظ ابن کثیر نے انھیں امام، حافظ اور علامہ جیسے القاب سے یاد کیا ہے اور کہا ہےکہ وہ مفید شرعی علوم میں مشغول رہتے اور ان میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔وہ اپنے اہلِ زمانہ سے فائق تر اور مشہور کتب کے مصنف تھے۔
حوالہ : البدایة والنهایة، جلد 12، صفحہ 83
تو جی ابن حزم کی علمی شخصیت پر میں نے اہل سنت کے جید علماء کی آراء پیش کر دیں تاکہ ان کی کتاب سے پیش کیے جانے والے کسی بھی حوالے کو کوئی جھٹلا نہ سکے ۔ اور جھٹلائے گا بھی کیسی جبکہ خود اپنے دفاع میں ان بیچاروں کے پاس یہی ایک کتاب بچتی ہے!
اگر کوئی اہل سنت بھائی اپنے امام ابن حزم کے فضائل پڑھنا چاہے تو وہ اس کتاب کی طرف رجوع کرے کیونکہ میں یہاں ان صاحب کی سوانح حیات لکھنے نہیں بیٹھا ۔۔
کتاب: امام ابن حزم اور جمہور کا تصورِ اجتہاد۔ تقابلی جائزہ
چلیں جی اب وہ ابن حزم کی کتاب سے وہ دلیل میں خود لکھ دیتا ہوں جسے یہ اہل سنت مُلا اپنے نام نحاد اصحاب کو بچانے کے لئے پیش کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
وَأَمَّا حَدِيثُ حُذَيْفَةَ فَسَاقِطٌ، لِأَنَّهُ مِنْ طَرِيقِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ – وَهُوَ هَالِكٌ – وَلَا نَرَاهُ يَعْلَمُ مَنْ وَضَعَ الْحَدِيثَ فَإِنَّهُ قَدْ رَوَى أَخْبَارًا فِيهَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَطَلْحَةَ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – أَرَادُوا قَتْلَ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – وَإِلْقَاءَهُ مِنْ الْعَقَبَةِ فِي تَبُوكَ – وَهَذَا هُوَ الْكَذِبُ الْمَوْضُوعُ الَّذِي يَطْعَنُ اللَّهُ تَعَالَى وَاضِعَهُ – فَسَقَطَ التَّعَلُّقُ بِهِ – وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.
ترجمہ : اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے کیونکہ اس نے متعدد روایات میں ذکر کیا ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے۔
حوالہ : كتاب المحلى بالآثار – مسألة التعريف بالمنافقين والمرتدين، جلد 12، صفحہ 160 – ناشر المكتبة الشاملة الحديثة
لو جی ہو گئی فاتحہ ۔۔ ہاہاہاہاہاہا
امام ابن حزم خود اقرار کر رہے ہیں کہ ولید بن جمیع سے متعدد روایات نقل ہیں
فَإِنَّهُ قَدْ رَوَى أَخْبَارًا فِيهَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَطَلْحَةَ، وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ أَرَادُوا قَتْلَ النَّبِيِّ
ناصبی ذرا غور سے اپنے امام ابن حزم کا یہ لفظ ” روی اخبارً ” دیکھیں اور اپنے اوپر خود فاتحہ پڑھ لیں کیونکہ ابن حزم نے لفظ ” خبر ” استعمال نہیں کیا کہ کسی کو لگے کہ بس ایک بار ہی یہ روایت ہوا کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص نے نبی صلی الله علیہ و آل وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ بلکہ بہت سی روایات اس سلسلے میں امام ابن حزم کے سامنے سے گزری ہیں جن کا راوی ولید بن جمیع ہے ۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا
تو جی ان منافقین کے نام تو خود امام ابن حزم نے بتا دیئے جنہوں نے تبوک سے واپسی پر عقبہ کے مقام پر رسول اللہ کو قتل کرنے کی سازش اور با نفسِ نفیس خود اقدامات کئے تھے ۔۔ یعنی ابو بکر، عمر، عثمان، طلحہ اور سعد بن ابی وقاص ( لعنت اللہ اجمعین) ھاھاھاھاھا
چلیں جی اب میں فقط اس بیچارے راوی ولید بن جمیع کو ثقہ اور صدوق یعنی اس کی ثقائیت اہل سنت علمائے رجال سے ثابت کر دیتا ہوں تاکہ یہ باآسانی ثابت ہو جائے کہ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے رسول کو قتل کرنے کا اقدام کیا تھا ۔۔ کیونکہ امام ابن حزم نے خود اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ایک نہیں بلکہ کئی احادیث میں وارد ہوا ہے۔ تو اب صرف ولید بن جمیع کو ثقہ ثابت کر دینا کافی ہوگا کیونکہ یہی وہ راوی ہے جس سے امام مسلم نے بھی وہی بارہ منافقین والی حدیث روایت کی ہے ۔
—— الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) اسماء و رجال و تعدیل سے !
1- امام احمد ابن حنبل نے ولید بن جمیع کو اپنے رجال میں ثقہ لکھا ہے۔
الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري، المكي، الكوفي، وقد ينسب إلى جده.
قال أبو داود: قلت لأحمد: الوليد بن جميع؟ قال: ليس به بأس.
وقال عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل: قال أبي: الوليد بن جميع، ليس به بأس. «الجرح والتعديل»
حوالہ : كتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، جلد 4، صفحہ 95
2- امام عجلی نے اپنی کتاب الثقات میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
الوليد بن عبد الله بن جميع الزهري: “مكي”، ثقة
وثقه “أيضًا”: ابن معين، وابن حبان “5: 492″، وذكره في المجروحين أيضًا، وقال: ينفرد عن الأثبات بما لا يشبه حديث الثقات. “التهذيب” “11: 138-139”
حوالہ : كتاب الثقات للعجلي ط الباز، صفحہ 165
3- امام مزی نے تھذیب الکمال میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
بخ م د ت س: الْوَلِيد بْن عَبد اللَّهِ بْن جميع الزُّهْرِيّ الكوفي ، والد ثابت بْن الوليد بْن عَبد اللَّهِ بْن جميع، وقد ينسب إلى جَدِّه أيضا.
طبقات ابن سعد: 6 / 354، وتاريخ الدارمي، الترجمة 838، وسؤالات ابن محرز، الترجمة 416، وتاريخ البخاري الكبير: 8 / الترجمة 2511، وثقات العجلي، الورقة 56، وسؤالات الآجري: 5 / الورقة 33، والمعرفة ليعقوب: 1 / 233، وتاريخ أبي زرعة الدمشقي: 291، 566، وضعفاء العقيلي، الورقة 223، والجرح والتعديل: 9 / الترجمة 34، وثقات ابن حبان: 5 / 492، والمجروحين، له: 3 / 78، والكامل لابن عدي: 3 / الورقة 189، وثقات ابن شاهين، الترجمة 1499، ورجال صحيح مسلم لابن منجويه، الورقة 185، والجمع لابن القيسراني: 2 / 539، والكاشف: 3 / الترجمة 6175، والمغني: 2 / الترجمة 6848، والميزان: 4 / الترجمة 9362، وتذهيب التهذيب: 4 / الورقة 137، ومن تكلم فيه وهو موثق، الورقة 32، ومعرفة التابعين، الورقة 44، وتاريخ الاسلام: 6 / 314، وجامع التحصيل، الترجمة 858، ونهاية السول، الورقة 418، وتهذيب التهذيب: 11 / 138، والتقريب، الترجمة 7432.
حوالہ : كتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، جلد 31، صفحہ 35، رقم 6713
4- امام ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات لابن حبان میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
الْوَلِيد بن عبد الله بن جَمِيع الزُّهْرِيّ يروي عَن أبي الطُّفَيْل روى عَنهُ وَكِيع وَابْنه ثَابت بن الْوَلِيد
حوالہ : كتاب الثقات لابن حبان، جلد 5، صفحہ 492 ، رقم 5888
5- امام احمد بن حنبل نے ایک جگہ ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے اور ساتھ تعدیل بھی پیش کی ہے
الوليد بن عبد اللَّه بن جميع الزهري؛ قال أبو داود: قلت لأحمد: الوليد بن جميع. قال: ليس به بأس.
“سؤالات أبي داود” (378) قال حرب: سئل أحمد عن الوليد بن جميع، قال: ما أعلم إلا خيرًا.
“مسائل حرب” ص 467 وقال عبد اللَّه: حدثني أبي قال: حدثنا ثابت بن الوليد بن عبد اللَّه بن جميع قال: حدثني أبي قال: قال لي أبو الطفيل: أدركت ثمان سنين من حياة رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-، وولدت عام أحُدٍ.
رواه الإمام أحمد 5/ 454، والبخاري في “التاريخ الكبير” 6/ 446، والطبراني في “الأوسط” 4/ 310 (4290)، والحاكم في “المستدرك” 3/ 618، قال الهيثمي في “المجمع” 1/ 199: رواه أحمد وفيه ثابت بن الوليد بن عبد اللَّه، ذكره ابن عدي في “الكامل” ولم يتكلم فيه بكلمة، وذكره ابن حبان في “الثقات”، وقال: ربما أخطأ، وقد روى عنه أحمد وشيوخه ثقات.
“العلل” رواية عبد اللَّه (2368)
حوالہ : كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد الرجال، جلد 19، صفحہ 129، رقم 2812
6- امام ابن قُطْلُوْبَغَا نے اپنی کتاب میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
الوليد بن عبد الله بن جُمَيْع الزهري. يروي عن أبيه. روى عنه أهل العراق، ربما أخطأ «الثقات»: (8/ 158)
وقال ابن أبي حاتم: روى عنه: أحمد بن حنبل، وإبراهيم بن موسى، «الجرح والتعديل»: (2/ 458)
حوالہ : كتاب الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة، جلد 3، صفحہ 127، رقم 2205
7- امام البانی نے اپنی کتاب میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
وأما المنذري؛ فأعله في “مختصره ” بقوله: ” فيه الوليد بن عبد الله بن جُميع الزهري الكوفي؛ وفيه مقال، وقد أخرج له مسلم “!
قلت: لكن هذا المقال لا يسقط حديثه عن درجة الحسن؛ فإنه- بالإضافة إلى تخريج مسلم له- فقد قال ابن معين فيه:
” ثقة “. وكفى به توثيقاً!
وكذا قال العجلي. وقال أحمد والمصنف: ” ليس به بأس “. وقال أبو زرعة: ” لا بأس به “. وقال أبو حاتم:” صالح الحديث “.
وتناقض فيه ابن حبان. وقال ابن سعد: ” كان ثقة له أحاديث “. وقال الحافظ: ” صدوق يهم “. وقال العيتي في “شرح الهداية”- كما في “التعليق المغني “-:
” فالحديث إذاً صحيح؛ أما الوليد، فإن مسلماً أخرج له، وكفى هذا في عدالته وثقته “.
والحديث أخرجه أحمد (6/405) : ثنا أبو نعيم قال: ثنا الوليد بن عبد الله ابن جميع … به أتم منه.
ومن هذا الوجه: أخرجه البيهقي (3/130)
حوالہ : كتاب صحيح أبي داود الأم – ناصر الدين الألباني ، جلد 3 ، صفحہ 143
نوٹ: ایک ایک کتاب سے عربی متن پیش کرنے سے تحریر مزید طویل ہوتی جا رہی ہے جبکہ میری کوشش ہے کہ جتنے زیادہ علمائے اہل سنت کی ولید بن جمیع کے بارے میں جو نظریات ہیں وہ سب بیان کر دوں ۔ تو اب صرف حوالہ جات پیش کرتا ہوں بغیر عربی متن کے۔
8- امام ابن منجویہ نے اسے اپنی کتاب میں ثقہ لکھا ہے
حوالہ : كتاب رجال صحيح مسلم – ذكر من اسمه الوليد، جلد 2، صفحہ 299، رقم 1740
9- امام بدر الدين العيني نے بھی ولید کو ثقہ شمار کیا ہے
حوالہ : كتاب نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار، جلد 11، صفحہ 273
10- امام ابن حاتم رازی نے بھی ولید کو ثقہ قرار دیا ہے
حوالہ : كتاب الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، جلد 2، صفحہ 458، رقم 1852
11- امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اسے مکمل ثقہ لکھا ہے
حوالہ : كتاب لسان الميزان – من اسمه الوليد ، جلد 7، صفحہ 426، رقم 5165
12- امام ابو اسحاق الحوینی نے بھی ولید کو ثقہ لکھا ہے
حوالہ: كتاب نثل النبال بمعجم الرجال، جلد 3، صفحہ 492، رقم 4204
13- امام ابن کثیر نے بھی ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
حوالہ : كتاب التكميل في الجرح والتعديل ومعرفة الثقات والضعفاء والمجاهيل، جلد 2، صفحہ 98، رقم 1019
14- امام ذھبی نے بھی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں ولید بن جمیع کو ثقہ لکھا ہے
حوالہ: كتاب ميزان الاعتدال، جلد 4، صفحہ 337، رقم 9362
لو جی تمام ناصبی ملاؤں کی ٹانگیں اٹھا کر مکمل فاتحہ پڑھ دی گئی ۔۔
اب تمام ناصبی جو ابن حزم کو دلیل بنا کر ، منافقین کو چھپا کر کبھی انہیں صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، غنی اور نجانے کیا کیا پکارتے آئے ہیں وہ ذرا ابن حزام ہی کے قول کے مطابق ولید بن جمیع کہ جس نے واضح طور پر ان منافقین کے نام نقل کئے ہیں وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ ابن حزام کے دعوے کے مطابق کئی بار ان منافقین کے نام روایت ہوئے ہیں ۔ جن کو علم الرجال و الحدیث کے جمہور علمائے اہل سنت نے ثقہ لکھا ہے اور نہ صرف ثقہ لکھا ہے بلکہ ثقہ الثبت لکھا ہے کیونکہ اس راوی سے امام مسلم نے روایات کو نقل کیا ہے جو اہل سنت کے ہاں صحیحن میں سے ایک کتاب ہے یعنی صحیح مسلم ۔۔
اب جبکہ ثابت ہو چکا کہ تبوک سے واپسی پر عقبہ وادی میں رسول اکرم کو قتل کرنے کا قبیح اقدام کرنے والے منافقین ابو بكر و عمر و عثمان و طلحہ اور سعد بن ابی وقاص تھے، تو اپنے آخر کلام میں غیر متعصب مسلمانوں سے یہ کہوں گا کہ اگر حق کوثابت کرنے کے لئے کسی کے بارے میں تحقیق وتنقید کی جائے تو یہ انصاف کے عین مطابق ہے چونکہ صحابہ معصوم نہیں تھے لہٰذا گناہوں سے منزہ و مبرا بھی نہیں تھے۔ وہ ہم جیسے انسان تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انھیں رسول خدا کی صحابیت اور ہمنشینی کاشرف ملا یہ شرف اسی وقت کسی صحابی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جب تک وہ سیرت رسول اکرم پر قائم رہے اور اگر کوئی صحابی سیرت رسول اکرم چھوڑ کر اپنی سیرت پر عمل کرے اور کرائے، رسول کی بیٹی کے گھر پر حملہ کرے اس کا حق غصب کرے، رسول کے نامزد خلیفہ علی ابن ابی طالبؑ کا حقِ خلافت غصب کرے، امام علیؑ پر سب و شتم کرے اور کروائے، اصحابِ رسول کو قتل کرے اور سب سے بڑھ کر خود رسول اللہ کو شہید کرنے کے لیے سازش رچے تو یہ شرف اس سے خود بخود ختم ہو جائے گا․
تبھی ہم شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وند عالم نے جو قانون بنایا ہے اس قانون کی روشنی میں کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ خدا وند عالم قاتل و مقتول اور ظالم و مظلوم اور مومن و منافق کے ساتھ یکساں طور پر سلوک کرے گا بلکہ جس کا جتنا رتبہ بلند ہے اس کا اسی اعتبار سے حساب لیاجائے گا لہٰذا اگر کسی صحابی نے غلطی کی ہے تو اس کو دوہرا عذاب ملے گا کیوں کہ اس نے پیغمبر اکرم کو دیکھا ،پہچانا اور سنا پھر بھی ان کا حکم نہیں مانا بلکہ منافقت کرتے رہے․ جیسا کہ خداوند عالم ازواج رسول اکر م کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
یَانِسَاءَ النَّبِیِ مَنْ یٰاتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَیّنِةٍ یُضٰاعَفْ لَھٰا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذَالِکَ عَلٰی اللّٰہِ یَسِیْراً
ترجمہ : اے ازواج پیغمبر:تم میں سے جس نے بھی کوئی برا اور فاحش کام انجام دیا تو اس کے لئے دگنا عذاب ہے اور یہ کام خدا کے لئے آسان ہے۔
جب امہات المومنین کے لئے قرآن مجید میں ایسا دستور موجود ہے کہ غلطی کرنے کے بعد وہ اللہ سبحانہ کی پکڑ اور گرفت سے باہر نہیں ہیں تو اصحاب رسول اکرم غلطیوں پر غلطیاں کرنے کے بعد کیسے معاف کر دیئے جائیں گے ؟
ذرا سوچیئے ۔۔ والسلام #ابوعبداللہ
(نوٹ: تحریر کافی طویل ہو گئی تو دبیلہ سے کون کون مرا تھا اس پر پھر کسی دن لکھوں گا باتوفیق خدا)