مومنین کی غالب اٙکثریت اٙیسی ہے جن کے ذہنوں میں ولایت کا تصور ہی کلیر نہیں۔وہ ولایت اٙمیرالمومنین علیہ السلام کو فقط ایک کلمہ سمجھتے ہیں ۔اور کلمہ توحید و رسالت کے ساتھ ہر مقام پر پڑھنا اُسے لازم و واجب جانتے ہیں حتی کہ نماز جنازہ میں بھی ۔اور کچھ لوگ اِس کلمے کو آذان اور اٙقامت میں تو قبول کرتے ہیں لیکن نماز کے تشہد و سلام میں پڑھنے سے اُن کے نزدیک نماز باطل ہو جاتی ہے ۔
اور کچھ ہیں کہ جو بالکل ہی سرسری لیتے ہیں پڑھ لیا تو ٹھیک نہیں پڑھا تو بھی ٹھیک ۔ اگر دیکھا جائے تو یہی ایک بات ہے جو ملت تشیع میں وجہِ نزاع بنی ہوئی ہے ۔ اور اِسی پر عموما بحث مباحثے اور حتیٰ کہ جھگڑے بھی ہوتے ہیں ۔
جبکہ حقیقت ولایت فقط کلمے کی حد تک موقوف نہیں ۔بلکہ یہ معاملہ تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے اگر حقیقت ولایت سمجھ میں آ جائے اور قلوب اُسے تسلیم کر لیں تو یہ جھگڑے خود بخود ختم ہو سکتے ہیں ۔
جو لوگ اس کلمے سے کم یا زیادہ گریزاں رہتے ہیں اُس کی دیگر وجوہات میں ایک وجہ اُن کی اپنی ولایت بھی ہے جسےپہلی دفعہ1978؛79 کی دہائی میں ولایت فقیہ کے نام سے متعارف کروایا گیا۔
جبکہ دوسری طرف ولایت علی علیہ السلام کے اُس کلمے کو ہر مقام پر لازم و واجب سمجھنے والے فقط ولایت علی علیہ السلام اور ان کے 11 معصوم بیٹوں کی ولایت کو ہی منصوص من اللہ سمجھتے ہیں اور اُس کے علاوہ ہر ولایت کو خود ساختہ اور باطل تصوّر کرتے ہیں ۔یہ وہ تصور ہے جو فریقین کے ذہنوں میں عمومی طور پر پایا جاتا ہے ۔
اب ہم بات کرتے ہیں اس موضوع پر کہ ولایت کا اصل مفہوم کیا ہے
ولایت کا لفظ ولی کے مادہ و مصدر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کے دیگر الفاظ ہیں ولی مولا موالی وغیرہ۔ جس کا معنی با اختیار ۔ ذمہ دار اور وارث کے ہیں۔اس کے علاوہ جتنے بھی معنی اِسلامک لٹریچر میں مشہور کیے گئے ہیں وہ فقط نظریہ ضرورت کے تحت کیے گئے ہیں ۔اور یہ ان لوگوں کی بددیانتی اور کارستانی ہے جو قران کے اصل مفاہیم کو اٙپنے پسندیدہ مفہوم کی طرف divert کرنا چاہتےہیں یعنی(موڑنا چاہتے ہیں) ۔
تصوّرِ ولایت تین ستونوں پر اِستوار ہے۔
نمبر ١: علم ۔ نمبر ٢ : اختیار نمبر ٣ : قوت
مقصد یہ ہے کہ اگر ولی کچھ کرنا چاہے تو جو وہ کرنا چاہتا ہے لازم ہے کہ اُس کا مکمل علم اُس کے پاس ہو۔ نمبر دو وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُس کے کرنے کا اُسے اِذن و اختیار بھی حاصل ہو اور نمبر تین اُس کے پاس اُس قوت و قدرت کا ہونا لازمی ہے جو اُس کام کے کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اِس طرح سمجھیں کہ علم تو ہے لیکن اُسے کرنے کا اختیار نہیں یا علم اور اختیار تو ہے لیکن وہ قوت نہیں جو اُس کام کی تکمیل کے لیے ضروری ہے ۔ یہاں ہم ایک مثال دینا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ بات مکمل سمجھ میں ا جائے اور ذہن کا کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہے ۔
فرض کریں کہ اپ کسی شوگر مل یا فلور مل یا کسی اور بڑے پروجیکٹ کے اُونر ہیں۔بحیثیت مالک یہ آپ ہی کی ذمہ داری تھی کہ آپ اُس مل یا فیکٹری کے لیے زمین حاصل کریں پھر مطلوبہ مشینری منگوائیں اور ماہرین کی خدمات حاصل کر کے اُسے درست طریقے سے انسٹال کروائیں ۔
اٙب اس کے انتظام و اِنصرام کے لیے آپ کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کریں گے جو اس پروجیکٹ کو چلانے کا مکمل علم رکھتا ہو ۔اُس کے بعد اپ اُسے مکمل اختیار دے کر وہ پروجیکٹ اس کے حوالے کر دیتے ہیں ۔اِس منصب کو دور حاضر میں چیف ایگزیکٹو GM یعنی جنرل مینجر یا MD مینجنگ ڈائریکٹر وغیرہ کہتے ہیں ۔لیکن ہمارے موضوع کے حوالے سے یہی شخص ولی کہلاتا ہے ۔
اس پروجیکٹ کا پورا عملہ پوری مشینری اور تمام لین دین کے معاملات اُس کی مرضی سے چلتے ہیں ۔وہ جسے چاہے رکھے جسے چاہے نکال دے جسے چاہے ترقی دے اور جسے چاہے معزول کرے ۔ یہ تمام اِختیارات اُسے حاصل ہیں ۔کس کی طرف سے ؟
مالک کی طرف سے ۔کیونکہ مالک نے اسے اجازت دے رکھی ہے ۔ لہذا اُس پروجیکٹ سے متعلق کسی بھی کام کے کرنے کے لیے ہر بار اُسے مالک کے حکم کی ضرورت نہیں ۔ وہ اُن تفویض شدہ اختیارات کو جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے ۔ یہی فرق ہے اِذن اور اٙمر میں یعنی اجازت میں اور حکم میں۔ لیکن اِس مکمل ازادی کے باوجود مالک کا حق تصرّف ختم نہیں ہو جاتا ۔ یہاں مثال ختم ہوئی۔
اس کے بعد ہم لفظ ولی اور ولایت کو خالصتاً اسلامی اور شرعی حوالے سے دیکھیں گے ۔سب سے پہلی بات کہ ولی چھوٹا ہو کہ بڑا اُسے فقط اللّٰہ ولی بناتا ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ ولی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ میں سب سے چھوٹا ولی باپ ہوتا ہے ۔جو اپنی زوجہ اپنی اولاد اور اپنے گھر کا ولی ہوتا ہے ۔یہ جو سب سے چھوٹا ولی ہے اُسے بھی اللّٰہ نے بنایا ہے
کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی دوسرے شخص کی کسی خصوصیت سے متاثر ہو کر اُسے اٙپنا اٙبا ڈیکلیئر کر لے ۔ جب یہ بات طے ہو گئی کہ ولی چھوٹا ہو کے بڑا صرف اللّٰہ بناتا ہے ۔ جس طرح سب سے چھوٹا ولی باپ ہوتا ہے ۔اِسی طرح سب سے کمتر ولایت کو ولایت ذاتی یا ولایت نفسی کہتے ہیں ۔ہر شخص اس ولایت کا حامل ہے ۔آسان لفظوں میں ہر شخص کا نفس اُس کی سلطنتِ جسم پراللّٰہ کی طرف سے ولی مقرر ہے ۔
اٙب ذرا اس کم ترین ولایت کا اپنی سلطنت پر اختیار و اقتدار ملاحظہ فرمائیے ۔جس طرح اللّٰہ کو اٙپنی ولایت الہیہ مطلقہ جو سب سے بڑی ولایت ہے میں کچھ کرنے کے لیے حکم دینے کی ضرورت نہیں بس اُس کا ارادہ ہوتا ہے اور کام ہو جاتا ہے ۔اِسی طرح ہر نفس کو اپنے جسم کی سلطنت پر یہی اقتدار و اختیار حاصل ہے ۔
اسے کہیں جانے کے لیے قدموں کو حکم دینے کی ضرورت نہیں بس اس کا ارادہ ہوتا ہے اور قدم اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔اگر جسم کے کسی حصے میں کھجلی ہو تو اسے ہاتھ کو یہ حکم نہیں دینا پڑتا کہ وہاں جا کر کھجلی کرے بس اس کا ارادہ ہوتا ہے اور کام ہو جاتا ہے ۔یہ مقام ہے سب سے کم ترین ولایت کا ۔اب اِسی آئینے میں آپ ولایت الہیہ کا تصوُّر کریں کہ اس کائنات کے ذرے ذرے پر اللّٰہ کا اِقتدار و اِختیار کیسا ہے ۔
اللّٰہ نے یہ کارخانہ قدرت تعمیر فرمایا ۔پھر اُس نے اپنے کچھ منتخب بندے خلق فرمائے جنہیں اپنی طرف سے علم و حکمت عطا فرمائی پھر اُنہیں بعض کو بعض پر فضیلت دے کر عام مخلوق کی ہدایت کے لیے نبی بنا کر بھیجا ۔ اور ان کے درجات اور ضرورت کے مطابق اُنہیں ولایت عطا فرمائی یعنی اِس کارخانہ قدرت میں اُنہیں جتنا چاہا اِختیار و اِقتدار عطا فرمایا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ 123999 انبیاء علیہم السلام کی وجہ تخلیق ہدایت انسانیت ہےاور اجمالی تصوّٙر توحید سے آگاہی دینا اور بتدریج اِقبالِ توحید کی خاطر نسلِِ انسانی کی زہن سازی کرنا تھا ۔
جب کہ محمد و آل محمد علیہ السلام کی وجہ تخلیق توحید کو تمام تر صفات و کمالات کے ساتھ عملاً اس طرح ثابت کرناکہ پھر کوئی حجت باقی نہ رہے ۔ حدیث قدسی یعنی فرمان خداوندی ہے ۔
«کنت کنزاً مخفیاً فٙأحبٙبتُ أن اُعرِفٙ فٙخٙلٙقتُکٙ یٙامُحٙمّٙدؐ ۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اے محمدؐ میں نے اپ کو خلق کیا
اسی لیے اللّٰہ نے اُن کی ولایت کو قران پاک میں اپنی ولایت کے ساتھ ذکر فرمایا۔اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْن سورہ المائدہ۵۵ یقینا اللّٰہ ایمان والوں کا ولی ہے اور اس کا رسولؐ اور وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں ۔
چونکہ وہ خود تو دکھائی نہیں دیتا اور نہ کسی سے بات کرتا ہے ۔لہذا اُس نے ان 14 ذوات مقدسہ کو اپنے تعارف کی غرض و غایت کے تحت وِلایت اِلہیہ عطا کر کے اس دنیا میں بھیجا ۔کیونکہ یہ عام فہم بات ہے کہ ولایت الہیہ سے کم درجے کی ولایت کے ساتھ توحید کا کما حقہ تعارف کروانا ناممکن تھا ۔کیونکہ جو قدرت اِن میں دکھائی نہ دیتی وہ اُس میں ثابت نہیں ہو سکتی تھی ۔ بات اٙپنے اختتام کو پہنچی ۔المختصر یہ کہ ولایتِ معصومین علیہم السلام کا مطلب ولایتِ الہیہ ہے اور اِس کائنات کا ذرہ ذرہ بشمول عرضی و سماوی مخلوقات اُن کے حکم کے تابع ہیں ۔
لہذا وہ اِس کائنات میں وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو اللّٰہ کر سکتا ہے۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کارخانہ قدرت میں اِس کُلّی اقتدار و اختیار کے باوجود اِس کائنات کے خالق و مالک کا حق تصرُّف ختم نہیں ہو جاتا ۔ کیونکہ ان ہستیوں کی ولایت اُس کی عطا کردہ ہے جبکہ اُس کی ولایت اُس کی ذاتی ہے
اس لیے کہ بہرحال وہ اِن کا خالق اور یہ اُس کی مخلوق ہیں ۔اٙب آخر میں اِس سوال کے ساتھ ہم اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ اگر قلوب انسانی چہاردہ معصومین علیہ السلام کے کائنات میں اِس حق تصرُّف کو تسلیم کر لیں تو کیا پھر بھی یہ سوال باقی رہ جاتے ہیں کہ وہ اولاد شفا رزق یا دیگر ضروریات انسانی عطا کر سکتے ہیں یا نہیں ۔ لہذا جو شخص ولایت علی علیہ السلام کو اِس معیار پر تسلیم کر لیتا ہے تو پھر یہ سوالات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
(وٙمٙا عٙلیِنٙا اِلآالبلٙاغ)
تحریر زوار مختار حسین