سورہ الاعراف (۴۴تا ۵٠)
وَنَادٰٓى اَصْحَابُ الْجَنَّـةِ اَصْحَابَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُّـمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ جنت والے جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ ہمارے رب نے جو ہم سے وعدہ کیا تھا وہ سچا ہے۔ کیاتمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا وہ بھی سچا نکلا ؟ قَالُوْا نَعَمْ ۚ وہ کہیں گے کہ ہاں ۔
فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَـهُـمْ بس پھر ایک موذن اُن کے درمیان آذان دے گا۔
(ہم نے جو آج تک جو آذانیں سنی ہیں وہ تو یہ تھی اشہد ان لا الہ الا اللہ ۔اشہد ان محمد رسول اللہ اور اشہد علی ولی اللہ لیکن وہ آذان جو محشر میں دی جائے گی وہ اِس آذان سے بالکل ہی مختلف ہے)۔وہاں موذن آذان دے گا۔ اٙن لَّعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الظَّالِمِيْنَ (44)اللّٰہ کی لعنت ہے ظالموں پر (کون سے ظالم جنہوں نے کسی کی زمین دبا لی یا کسی کے مکان پر قبضہ کر لیا یا کسی کو قتل کر دیا۔یقینا یہ سب لوگ بھی ظالم ہیں لیکن محشر میں جو لعنت پڑ رہی ہے اُس کے یہ مصداق نہیں۔ وہ لعنت ہے اُن لوگوں پر)
اَلَّـذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ۔ اُن پر جو لوگوں کو سبیل اللّٰہ سے روکتے تھے ۔ (میرے قارئین اٙگر توجہ ملحوظ رکھیں تو آیات میں اٙب وہ مقام اٙرہا ہے جہاں اُن ظالموں کے چہروں سے اُن کے گناہوں کی گرد جھڑنے لگے گی اور اُن کے مانوس خدوخال آپ کو دکھائی دیں گے۔کون ہے جو شیعہ کہلاتا ہے لیکن اُسے یہ نہیں معلوم کہ اللّٰہ کے کلام میں سبیل اللّٰہ سے مراد کون ہے۔ تمام تفاسیر اور فرامین معصومین علیہم السلام کے دفاتر چھلک رہے ہیں کہ قران پاک میں سبیل اللّٰہ سے مراد اٙمیر المُومنین مولا علی اِبن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔تو پہلا اِشارہ ہے کہ محشر میں جن ظالموں پر اللّٰہ کی لعنت برسےگی وہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو ولایتِ مولا علی علیہ السلام سے روکتے تھے ۔ اور صرف روکتے نہیں تھے) وَيَبْغُوْنَـهَا عِوَجًاۚ ۔ بلکہ اُس میں کٙجیاں اور نقص تلاش کرتے تھے
وَهُـمْ بِالْاٰخِرَةِ كَافِرُوْنَ (45)۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اٙخرت کے ہی اِنکاری تھے ۔(یہاں تک تو اللّٰہ نے اُن ظالموں کی پہچان کرائی ہے ۔اُس کے بعد محشر میں ہوگا کیا ملاحظہ فرمائیں)
وَبَيْنَـهُمَا حِجَابٌ ۚ دونوں کے درمیان حجاب ہوگا ۔(یعنی دو گروہ کھڑے ہیں ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی اور اُن کے درمیان کوئی آڑ ہے دیوار یا کوئی حجاب ہے ۔اور سامنے) وَعَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّا بِسِيْمَاهُـمْ ۚ ایک بلند مقام پر کچھ مرد کھڑے ہوں گے ۔(رٙجُل کی جمع ہے رِجٙال ۔اور اُن کی عظمت و فضیلت کا کمال یہ ہے کہ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّا بِسِيْمَاهُـمْ وہ تمام اہلیان محشر جو کہ میدان محشر میں رائی کے دانوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوں گے
اُن سب کو اُن کی پیشانیوں سے پہچانتے ہوں گے ۔کہ کوئی کون ہے اُس کا باپ کون ہے اُس کا قوم قبیلہ کون ہے دنیا میں کس مقام پر رہا کہاں اور کیسے موت آئی ۔وہ رجال یہ سب جانتے ہوں گے ۔مجھے امید ہے کہ میرے قارئین کے ذہنوں میں اُن مقدس ہستیوں کا تعارف بھی آگیا ہوگا۔منظر نامہ کچھ اِس طرح سے ہے کہ جنتیوں اور جہنمیوں کے دو گروہ سامنے ہیں جن کے درمیان حجاب ہے اور سامنے ایک بلند مقام پر کچھ ہستیاں تشریف فرما ہیں جنہیں یہ دونوں گروہ دیکھ رہے ہیں ۔
اب آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے ۔ظاہر ہے میدانِ محشر ہے ہر طرف خوف اور سراسیمگی کا عالم ہے۔اِس سکُوتِ مرگ میں اُن ہستیوں کی جانب سے ۔) وَنَادَوْا اَصْحَابَ الْجَنَّـةِ اَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ اہلیان جنت کو آواز دی جاتی ہے۔سلامتی ہے تم پر ۔( پریشان نہ ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں)
لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُـمْ يَطْمَعُوْنَ(46)جو جنت جانے کی اُمید رکھتے ہیں لیکن اٙبھی جنت میں داخل نہیں ہوئے۔
وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُـمْ تِلْقَـآءَ اَصْحَابِ النَّارِۙ
جب اُن کی نگاہ پڑتی ہے جہنم والوں پر
قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ(47)
تو کہتے ہیں کہ اے پالنے والے ہمیں اُن ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔
قارئین اٙب بات بڑی مزے کی ہے ۔
یّٙعْرِفُوْنَـهُـمْ بِسِيْمَاهُـمْ ۔وہ ہستیاں جو تمام اہلیان محشر کو اُن کے ماتھوں سے پہچانتی ہیں ۔
(وہ جہنمیوں سے مخاطب ہو کر) قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَـمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُـمْ تَسْتَكْبِـرُوْنَ (48)کہیں گے کہ آج تمہیں تمہاری کثرت نے بھی کوئی فائدہ نہ دیا ۔اور (وہ تمہارے اٙعمال) جن پر تم بڑا تکبر کیا کرتے تھے وہ بھی کام نہ آئے ۔(اُدھر دیکھو)
اَهٰٓؤُلَآءِ الَّـذِيْنَ اَقْسَمْتُـمْ لَا يَنَالُـهُـمُ اللّـٰهُ بِرَحْـمَةٍ ۚ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ اللّٰہ کی رحمت تو اِنہیں چھوئے گی بھی نہیں ۔(پھر وہی ہستیاں جنت والوں کو حکم دیں گی) اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَنْتُـمْ تَحْزَنُـوْنَ (49)جنت میں داخل ہو جاؤ آج نہ تمہارے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ۔(وہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ کسی کو جنت اور جہنم بھیجنے کا اٙختیار تو صرف اللّٰہ کا ہے ۔بس جو حکم اُن کی طرف سے صادر ہوگا وہی حتمی ہوگا۔)
وَنَادٰٓى اَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّـةِ اب جہنمی جنتیوں کو پکاریں گے ۔(وہ جہنمی جو دنیا میں مسجدوں کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ غیر اللّٰہ کو پکارنا شرک ہے۔ غیر اللّٰہ سے مت مانگو۔یہ سب اس لیے ہوتا تھا کہ اُس وقت نام نہاد مواحد ملاں کا پیٹ مال حرام سے بھرا ہوا ہوتا تھا لیکن جہنم میں جب بھوک اور پیاس کی شدت نڈھال کر دے گی تو دنیا والا عقیدہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور پھر پکار کر اللّٰہ کے سامنے جنتیوں سے مانگیں گے۔کیا ملاحظہ فرمائیں)
اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ ۚ کچھ فیض کرو ہم پر کہ ہم پر تھوڑا سا پانی ہی ڈال دو یا اُس رزق میں سے جو اللّٰہ نے آپ کو دیا ہے ہمیں کچھ دے دو ۔( یہی وہ مسئلہ ہے نا جس پر دنیا میں نام نہاد علمائے اِسلام گلے پھاڑ پھاڑ کر کہا کرتے تھے کہ اہل بیت سے رزق مانگنا اولاد مانگنا شفا مانگنا شرک ہے ۔اٙب میدان محشر میں بھکاریوں کی طرح مانگ بھی کیا رہے ہیں پانی کے چند گھونٹ اور روٹی کے چند ٹکڑے اور وہ بھی اللّٰہ سے یا اہل اٙعراف سے نہیں اٙعراف والوں کی معرفت کے صدقے میں جنت جانے والوں سے اور وہ بھی اللّٰہ کے رُوبرو ۔اور آخر میں جواب بھی سن لیجئے
قَالُـوٓا اِنَّ اللّـٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِـرِيْنَ (50)
جواب ملے گا کہ اللّٰہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں ۔
اخر میں اِن اٙلفاظ کے ساتھ اپ سے اِجازت چاہتے ہیں کہ یہ کسی کے ذہن کا اِختراعی اٙفسانہ نہیں۔ بلکہ یہ منظر نامہ اللہ نے خود اپنے کلام پاک کی سورہ اٙعراف میں نازل فرمایا ہے ۔ مبارک ہو انہیں جو سبیل اللّٰہ سے مُتمّٙسک ہیں
الحمدلله الذي جعلنا من المتمسكين بولاية أميرالمؤمنين علي ابن ابيطالب عليه السلام۔
تحریر زوار مختار حسین۔