مَثَلُ أَهْلِ بَیْتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَةِ نُوحٍ،
وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ(45)
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے پالنے والے یقینا میرا بیٹا بھی تو میرا اہل ہے اور تیرا وعدہ تو سچا ہے۔اور تو سب حاکموں میں سب سے بڑا حاکم ہے ۔
اُسلوب کلام سے ظاہر ہے کہ اللّٰہ نے حضرت نوح علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے اور تیرے اہل بیت کو اِس طوفانی عذاب سے نجات دوں گا ۔لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اٙپنی آنکھوں کے سامنے غرق ہوتے دیکھا تو شفقت پدری نے جوش مارا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اللّٰہ کی بارگاہ میں فریاد کی کہ اٙے میرے پالنے والے تو نے تو کہا تھا کہ میں تیرے اہل کو بچاؤں گا اور تیرا وعدہ سچا ہے ۔ تو اللّٰہ نے باقاعدہ سخت اٙلفاظ میں حضرت نوح علیہ السلام کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا ۔
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(46)
کہا کہ اے نوحؑ یقینا یہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے اور یقینا اس کا عمل غیر صالح ہے ۔پس تم ایسی بات مت کہو جس کا تجھے علم نہیں ۔اور میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں آئندہ اٙیسی بات نہ کرنا ورنہ نہ جاننے والوں میں سے ہو جاؤ گے ۔
یہ وہ نبی ہے جس نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی اُمت کے ظلم سہے پتھر کھائے لیکن اللّٰہ کی توحید کا پرچار جاری رکھا ۔اور زندگی میں ایک بار اپنے ایک بد عمل بیٹے کی سفارش کی جو نہ صرف مسترد کر دی گئی بلکہ سخت سرزنش بھی سننا پڑی ۔ کبھی کبھی حیران ہوتا ہوں اِن ملاؤں کی جہالت پر یا دیدہ دلیری پر جو یزید کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بُرا آدمی تھا زانی تھا شرابی تھا جو بھی تھا مگر ایک صحابی کا بیٹا تھا ۔
او بھائی میاں یہاں نبیوں کے بد عمل بیٹے پھنسے ہوئے ہیں تم صحابیوں کے بیٹوں کی بخشش کی آس لگائے بیٹھے ہو ۔ یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے وہ یہ کہ علمائے اِسلام نے ۔ یہاں آسانی سے یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے باپ کو اللّٰہ کا نبی نہیں مانتا تھا ۔حالانکہ اللّٰہ نے واضح طور پر اُسے بے ایمان نہیں کہا بلکہ بد عمل کہا ہے ۔
اللّٰہ تعالی نے قران میں متعدد بار (آمٙنُو وٙ اعٙمِلُ صٙالِحٙات)فرما کر یہ فرق واضح کر دیا کہ ایمان لاناایک الگ معاملہ ہے اور عمل کرنا دوسری بات ہے ۔اور سورہ ہود کی مذکورہ بالا آیت میں اللّٰہ نے پسرِ نوحؑ کے ایمان پر اعتراض نہیں فرمایا بلکہ اُس کےغیرصالح عمل پر اعتراض کیا ہے ۔
اٙب غور طلب بات یہ ہے کہ پسرِ نوحؑ کا وہ کون سا غیر صالح عمل تھا جو ناقابل معافی جرم بن گیا۔کہ نہ نسب ہی کام آیا اور نہ اولولازم نبیؑ کی سفارش کام آئی۔ ظاہر ہے یہ کوئی اٙیسا بڑا جرم تو تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو نہ صرف اپنے الفاظ واپس لینے پڑے بلکہ اپنے لیے بھی معافی مانگنا پڑی ۔
کوئی مورخ کوئی مفتی ملاں یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اُس میں یزید جیسی یا دنیا کے کسی بھی اور بد عمل شخص جیسی خصلتیں پائی جاتی تھیں ۔ نہ وہ زانی تھا نہ شرابی نہ بد اخلاق نہ اُسنے کسی کی جیب کاٹی نہ کوئی قتل کیا تو باقی بچا کیا ۔کل ملا کے باقی یہ بچا کہ اُس نے اُس کشتی پر سوار ہونے سے انکار کیا تھا جس پر سوار ہونے والوں کو نجات کی ضمانت دی گئی تھی ۔
حضورؐ نے بھی ایک کشتیِ نجات اُپنی اُمت کے لیے وضع فرمائی تھی ۔جس کے بارے میں حضورؐ کی حدیث مشہور ہے ۔
إِنَّ مَثَلُ أَهْلِ بَیْتِی فِیکُمْ کَمَثَلِ سَفِینَةِ نُوحٍ، مَنْ رٙکٙبٙھٙا فٙنَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ
حوالہ: حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج2 ص 343
یقینا میرے اہل بیت کی مثال تم لوگوں میں سفینہ نوحؑ جیسی ہے ۔پس جو اِس میں داخل ہو گیا نجات پا گیا اور جس نے اختلاف کیا وہ غرق ہوا ۔
اٙلْحٙمْدُ لِلّٰہِ الّٙذی جٙعٙلنٙا مِنٙ الْمُتٙمٙسکِینٙ بِوِلاٙیٙةِ آلِ مُحٙمّٙد عٙلیِھمُ السّٙلاٙم۔
تحریر زوار مختار حسین