حضرتِ خضرؑ کا زکر قران میں فقط ایک بار حضرت موسیٰ علیہ سلام کے حوالے سے آیا ہے ۔ اسکے علاوہ اس کردار کا زکر پھر پورے قران میں نہیں ہے ۔مزے کی بات کہ قران میں ان کا نام خضر بھی اللّٰہ نے نہیں بتایا صرف اتنا فرمایا۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ ءَاتَيْنَٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَٰهُ مِن لَّدُنَّاعِلْمًا سورہ الکھف ٦۵
پس وہ ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کے پاس پہنچا جسے ہم نے اٙپنی طرف سے رحمت عطاکی تھی اور (مِن لَّدُنَّاعِلْمًا) یعنی اپنے انتہائی قرب سے اُسے علم عطا فرمایا تھا۔
یہاں نام نہیں صرف عبد کہا گیا ہے ۔ باقی جتنے اٙنبیاء کے اٙزکار قران میں موجود ہیں سب کا زکر ایک سے زیادہ مرتبہ آیا ہے ۔ لیکن اِس ہستی کا نام نامی اور کسی حوالے سے دوبارہ زکر نہیں ہوا ۔ جو اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نام (خضرؑ) اُن کا اصلی نام نہیں بلکہ اِس طرح سے ہے کہ جیسے کسی کا نام معلوم نہ ہو تو اُسے کسی معروف اور اٙچھے فرضی نام سے پکارا جاتا ہے۔
جیسا کہ آج تک سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ اگر کسی کا اصل نام معلوم نہ ہو تو اُسے (یاصدیق ۔ یا رفیق) کہہ کر پکارا جاتا ہے اگر کہیں زیادہ احترام لازم ہو تو (یا محمد) کہہ کر بلاتے ہیں ۔ اِسی طرح یہ نام بھی اٙصل نام کی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ اور معنوی لحاظ سے اِسقدر زبردست ہے کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی معصومؑ کا بتایا ہوا ہے ۔ خضر کا لفظی معنی ہے سدا بہار ہمیشہ سرسبز رہنے والا ۔ ایک تو اِسمیں ہمیشگی کا اشارہ ہے اور دوسرے ہمیشہ ترو تازہ جو کبھی بھی مضمہل اور کمزور نہ ہو۔
اٙب دوسری طرف حضرتِ موسیٰ علیہ سلام کی فضیلت اور مقام و مرتبہ کیا ہے حضرتِ موسیٰؑ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رُسُل میں چار اُولالعزم صاحبِ کلمہ صاحبِ شریعت صاحبِ معجزہ اور صاحبِ کتاب انبیاء میں سے ایک ہیں۔ یہاں تک کہ اللّٰہ نے اپنے محبوب کو اِن کے ساتھ یہ فرما کر نسبت دی ہے۔
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَیْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًاؕ۔ یقیناً ہم نے تمہاری طرف محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او ایسے ہی رسول بنا کر بھیجا جس طرح ہم نے فرعون کی طرف موسیؑ کو بھیجا تھا ۔ یہ تو تھی عظمت و فضیلتِ حضرت موسی علیہ السلام کی۔
جبکہ دوسری طرف حضرت خضر علیہ السلام جن کا نہ کلمہ نہ کتاب نہ نبی ہونے کی کوئی دلیل ۔فقط اللہ نے انہیں اٙپنا (عبد) یعنی بندہ کہا ۔ لیکن بندہ اِس کمال کا کہ حضرت موسی علیہ السلام جیسا اولوالعزم نبی اُن کی شاگردی کے لیے مِنتوں پر اُتر آیا۔پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اللّٰہ کے پاس کمال کا صرف ایک عبد نہیں بلکہ فرمایا (عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ) ہمارے اُس جیسے بندوں میں سے ایک بندہ ہے۔
اب اس گفتگو کا تیسرا پہلو وہ منظر نامہ ہے جس میں حضرت موسی علیہ السلام ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اللّٰہ کے اس بندے سے ملے تو کیا مکالمہ ہوا ۔ حضرت موسی علیہ السلام جب اٙپنے مطلوبہ مقام سے آگے گزر جانے کے بعد دوبارہ واپس پلٹے تو دیکھا کہ سمندر کے بیچوں بیچ ایک ٹیلے پر ایک شخص چادراُوڑھے لیٹا ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آکر سلام دعا کے بعد نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کی۔
قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰۤى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔ کہا موسیٰؑ نے کیا میں آپ کی اِتباع کر سکتا ہوں۔ تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو علم آپ کو عطا کیا گیا ہے ۔ تو اُنہوں نے لیٹے لیٹے. کمال بے اعتنائی سے جواب دیا (قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِىَ صَبْرًا) کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ۔جسے پنجابی میں کہتے ہیں (تُسیں اٙینے جوگے نہی) اِس سے بھی بڑھ کر یہ فرمایا ۔ اور تم اِسپر صبر کر بھی کیسے سکتے ہو جس کا تجھے علم نہیں۔
حضرتِ موسیٰؑ نے فرمایا میں آپ کی چھوٹی سے چھوٹی نافرمانی بھی نہیں کروں گا ۔لگتا ہے کہ حضرتِ موسیٰ علیہ سلام ہر قیمت پر یہ ایڈمشن حاصل کرنا چاہتے تھے۔
اب گفتگو کے آخری مرحلے میں دیکھنا یہ ہے کہ اللّٰہ کا وہ عظیم بندہ کون تھا ۔ کیونکہ وہ نبی تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اسوقت کے اولالعزم نبی حضرتِ موسیٰ علیہ سلام خود تھے ۔اور اپنے زمانے کے عالمِ انسانیت میں سب سے افضل تھے لہذا ثابت ہوا کہ وہ عبد اُن کا ہم عصر نہیں تھا ۔ بلکہ اسکی ہستی زمان و مکان سے ماورا تھی۔
دوسرا اشارہ
اللّٰہ نے جب بھی اٙپنے انبیاء کو مخاطب فرمایا تو کے نام کے ساتھ ۔ حتیٰ کہ حضورؐ کو بھی جب بحیثیت نبی مخاطب فرمایا تو کبھی یٙا اٙیُھٙا اٙلرّٙسُول کہہ کر کبھی یٰسین کبھی طہٰ کبھی مزمل مدثر لیکن جب حضورؐ کے معراج کی عظمت کازکر فرمایا جو کسی اور نبی کو نہیں نصیب نہیں ہوئی تو حضورؐ کو نبی یا رسول حبیب یا کسی اور منصب سے نہیں بلکہ عبد کہہ کر فرمایا۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی۔پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک یعنی حضورؐ اپنے معراج پر بحیثیت عبد تشریف لے گئے ۔ جس سے مقامِ عبودیت کی قدرو منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بندے کے لیے عبودیت وہ عظیم المرتبت مقام ہے کہ جہاں نبوت و رسالت جیسے بلند مقام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ جیسے اولالعزم نبی کے استاد کو بھی اللّٰہ نے عبد کہا ہے اور یہ صرف ایک نہیں عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ مطلب یہ کہ ہمارے پاس ایسے کچھ بندے اور بھی ہیں۔
اگر مزید اگے بڑھ کر بات کی جائے تو اس کے علاوہ 13 عبد اور بھی ہیں جن کے سامنے عیسیٰؑ اور موسیٰؑ جیسے کئی نبی زانوئے ادب طے کرنے کو اپنے لیے شرف جانتے ہیں ۔آپ بات کو اگر To the point بیان کریں تو کچھ یوں ہے کہ۔ جب اکیس رمضان المبارک کو شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد جب حسنین شریفین اپنے بابا کا جنازہ اٹھا کر مقام قبر کی طرف چلے تو راستے میں ایک نقاب پوش شخص ملا اور اس نے مولا حسن علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپ ہی حٙسن اِبنِ علی علیہ السلام ہیں۔
تو مولا نے فرمایا کہ ہاں میں ہی حسن ابن علی ہوں تو نقاب پوش نے کہا کہ یہ جنازہ مجھے دے دیں ۔تو مولا حسن علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میرے بابا نے ہمیں وصیت کی تھی (اِنٙہُ اٙوصیٰ اِلیِنٙا اٙن لٙا نٙسلٙمہُ اِلّٙا اِلیٰ اٙحدِِ رٙجُلٙیِنِ جِبرٙائیِلُ وٙ الخِضر فٙمٙن اٙنتٙ مِنھُما فٙکٙشٙف اٙلنقٙاب فٙھُوا اٙمیِر اٙلمُومِنیِن ع)
کہ اگر جبرائیل یا حضرت خضر علیہ السلام آپ سے جنازہ طلب کریں تو جنازہ ان کے حوالے کر دینا آپ ان دونوں میں سے کون ہیں ۔ تو حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب نقاب پوش نے اٙپنے چہرے سے نقاب اُٹھایا تو وہ میرے بابا خود تھے ۔حوالہ المعاجز اہل بیت۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خضر جن کے پاس موسی علیہ السلام علم حاصل کرنے کے لیے تشریف لائے تھے وہ میرے مولا علی علیہ السلام ہی تھے ۔
آخر میں مقام عبودیت کے حوالے سے اقبال صاحب کا ایک شعر عرضِ خدمت ہے وہ کہتے ہیں ۔
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
تحریر : ذوار مختار حسین