اُمتِ مسلمہ کے تمام علماء و مشائخ نے اُمت کو بتایا ہے کہ لباس میں اگر معمولی سی نجاست لگ جائے تو نماز قبول نہیں ہوتی ۔ شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو نماز نہیں ہوتی ۔ نماز سے پہلے مسواک کرنا سنت ہے ۔ نماز کے لیے سر پر ٹوپی کا ہونا لازم ہے۔
اُمت نے اِن احکامات کو شرائطِ نماز تسلیم کرتے ہوئے اِس شدُّ مٙد سے اپنایا کہ اگر لباس پر نجاست کی ایک چھینٹ پڑ جائے اور دوسرا لباس میسر نہ ہوتو لوگ نماز نہیں پڑھتے ۔ شلواروں کو پنڈلیوں تک ہمہ وقت اُٹھائے رکھنا اپنا شعار بنا لیا ۔ مسواک کے لیے قمیض میں الگ سے جیب لگوالی ۔
کاش علماء نے اُمت کو بتایا ہوتا کہ غریب پر ظلم کرنے والے کی نماز اللّٰہ قبول نہیں کرتا ۔ کمزور کا حق مارنے سے نماز قبول نہیں ہوتی ۔۔اور سب سے بڑھ کر اگر ایک لقمہِ حرام معدے میں اُتر جائے تو چالیس دن تک نماز نہیں ہوتی ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جو غذا آپ کھاتے ہیں وہ بارہ گھنٹے تک تو بذاتِ خود معدے میں موجود رہتی ہے ۔اور پھر اسکے بعد اُس سے بننے والا خون چالیس دن تک انسان کے جسم میں سروس کرتا ہے جس سے دماغ آنکھیں کان بلکہ بدن کا ایک ایک رگ و ریشہ سیراب ہوتا ہے۔
چالیس دن کے بعد وہ خون جل کر تِلی کی شکل ایک طرف جمع ہوجاتا ہے ۔ اور غذائی تسلسل کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ لہذہ اگر بندہ رزق حلال کی کوشش کر لے تو یہ کوئی زیادہ لمبا کورس نہیں صرف چالیس دن کی احتیاط کے بعد جسم کی مکمل تطہیر ہو جاتی ہے۔
اور حلال کھانے والے کی دعا پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔ ایسے میں مانگی ہوئی دعائیں اللّٰہ کی بارگاہ میں فوراً مستجاب ہوتی ہیں ۔ اور انسان کی زندگی مصائب و آلام سے پاک ہو جاتی ہے ۔ کاش یہ بھی علماء نے بتایا ہوتا تو یقیناً اُمت ضرور عمل کرتی اور آج مسلم معاشرہ بھی دنیا میں قابل قدر ہوتا۔
لیکن یہاں تو لوگوں کو روحِ عمل نکال کر مردہ اعمال پر فریفتہ کردیا گیا ۔ نتیجتاً لوگ صدیوں سے سعیِ لا حاصل میں سرگرداں کوہلو کے بیل کی طرح ایک ہی ڈگر پر آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہیں ۔ اور نتیجہ عالمی سطح پر زلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اللّٰہ مسلمانوں کو روحِ عمل کے ساتھ عبادت کرنے کی معرفت اور توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ٹحریر زوار مختار حسین۔