طبعی موت سے 10 15 منٹ پہلے ۔ جب کوئی بندہ قریب المرگ ہوتا ہے تو اُس وقت کو اردو میں جان کنی کا عالم کہتے ہیں جبکہ عربی میں اسے عالم اِحتضار کہتے ہیں یہ لفظ (اِحتضار) حاضر اور حضور کے مادہ مصدر کا لفظ ہے ۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت کس چیز کی حضوری ہوتی ہے ۔دراصل اس وقت بندے کے دماغ میں غیر معمولی ہیجانی کیفیت ہوتی ہے اور یاداشتوں کا ایک طوفان دماغ کے میموری کمپارٹمنٹ میں برپا ہوتا ہے۔دماغ کا وہ حصہ جو حواسِ خمسہ سے مُتصل ہوتا ہے اس کے سیل تو اس وقت تقریباً ڈِم ہو چکے ہوتے ہیں جیسے بجلی کی سپلائی کم ہو جائے تو بلب ڈِم ہو جاتا ہے ۔
اسی لیے لواحقین کو اس کی سماعت ختم اور آنکھیں پتھرائی ہوئی سی دکھائی دیتی ہیں۔جبکہ اس کے دماغ کا میموری والا حصہ انتہائی ایکٹو ہوتا ہے اور اس میں اس کی زندگی کا ایک ایک عمل اپنے اثر سمیت اُسے دکھائی دے رہا ہوتا ہے ۔ لہذا وہ مرنے سے پہلے یہ بھی جان لیتا ہے کہ آنے والے وقت میں اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک مومن کے لیے موت انتہائی خوشگوار چیز ہوتی ہے جبکہ مجرم اور گناہ گار کے لیے وہ وقت بے حد اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی اِسی زندگی میں ہی آنے والے حالات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
اس کا یہ اِحساس مسلسل ایکٹیو رہتا ہے جبکہ اسی دوران اسکے جسم اور روح کا رابطہ منقطع ہو چکا ہوتا ہے ۔اوریہ تبدیلی دنیا والوں کے لئے تو واقعتاً ایک تبدیلی ہوتی ہے کیونکہ چند لمحے پہلے ایک شخص زندہ تھا جو اٙب مر چکا ہے اور اس کے لواحقین اس کی تجہیز و تکفین میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔جب کہ مرنے والا اپنی زندگی میں کسی قسم کا کوئی بریک محسوس نہیں کرتا۔
اتنا بھی نہیں کہ جیسے کوئی بندہ تھوڑی دیر کے لئے سو جائے یا بے ہوش ہو جائے بلکہ اس کا دماغ مسلسل بقائمی ہوش و حواس ہوتا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ اب جو خوشگوار ماحول میں راحت محسوس کر رہا ہے یا تکلیف دہ ماحول کی ازیت سے دوچار ہے ۔تو یہ نہ اسکی روح ہے نہ مادی جسم ہے بلکہ یہ اسکا نفس ہے ۔دنیاوی لذتیں اور تکلیفیں بھی یہی محسوس کیا کرتا تھا لیکن مادی جسم کے اعضاء و جوارع کے وسیلے سے اور روح کی حیثیت تو وہاں فیول جیسی تھی کہ جس نے اُسکے جسم کے فریم کو ایکٹو رکھا ہوا تھا ۔ روح کو اس سے غرض نہیں ہوتی تھی کہ جس وجود کو اُسنے زندگی کی حرارت دے رکھی ہے وہ مسجد میں جارہا ہے کہ قحبہ خانے میں وہ تو دونوں مقامات پر اُسے تندرست و توانا رکھتا تھا ۔
اب مرنے کے بعد روح عالمِ اٙرواح میں جسم قبر کی مٹی میں اور نفس جو کسی بھی وجود کی حقیقت ہے وہ عالم برزخ میں چلا جاتا ہے جہاں سے اسکی زندگی کا پارٹ ٹو شروع ہوتا ہے . جس میں وہ زندگی کے پارٹ ون میں کیے گئے اعمال کا سود و زیاں وصول کرتا ہے۔ زندگی جو عدم سے وجود میں آنے سے شروع ہو کر صورِ اسرافیلؑ پھونکے جانے تک باقی رہتی ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک دنیا چھوڑنے سے پہلے جس میں جسم روح اور نفس کا اِشتراک ہوتا ہے اور دوسرا حصہ اِنتقال کے بعد جس میں ان تینوں اجزا میں جدائی ہو جاتی ہے ۔ زندگی کے اس دوسرے حصے میں صرف نفس باقی رہتا ہے ۔
کیونکہ وہی جسم و روح کا مقتدرِ اعلیٰ تھا اور یہ اُن دو قوتوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر کے دنیا میں اعمالِ صالح یااعمالِ قبیحہ بجا لاتا تھا ۔ جب زندگی کا پارٹ ٹو شروع ہوتا ہے تو باقی دو قوتیں اٙلگ کر دی جاتی ہیں کیونکہ زندگی کے اس حصے میں دنیا میں کیے گئے اٙعمال کا حساب و کتاب اور ثواب و عتاب ہونا ہے ۔ حرکت عمل کا باب تو اگرچہ بند ہو چکا لیکن پھر بھی لواحقین کی طرف سے ایصالِ ثواب کے زریعے اسے ریلیف ملتا رہتا ہے ۔یہاں تک صورِ اسرافیلؑ پھونک کر کائنات کی ہر شئے کو ایسے ہی معدوم کر دیا جائے گا جیسے اپنی تخلیق سے پہلے تھی ۔
پھر جب دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی تو اُسوقت تک دنیا میں آنے والا ہر شخص چاہے وہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والا رہا ہو اپنے نیک و بد اعمال کا سود و زیاں وصول کر چکا ہوگا۔ گویا ہر شخص زیرو پوائنٹ پہ کھڑا ہوگا ۔اٙب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ جب اعمال کا ثواب و عتاب برزخ میں برابر ہو چکا تو جنت و جہنم کا فیصلہ کس بات پر موقوف ہے ۔ تو اِسکا انحصار (وٙقِفُوْھُمْ اِنّٙھُمْ مٙسْعُوْلُوْنٙ) پر ہے ۔ اور اِمامِ جعفر الصادق علیہ السلام کا فرمانِ زیشان ہے کہ یہ سوال ولایتِ امیر المومنین علی اِبنِ ابیِ طالب علیہ السلام کے بارے میں ہوگا ۔ تحریر زوار مختار حسین