آپ نے کبھی سوچا کہ امام حسن ع اور امام حسین ع کی پانچ چھ سال کی عمر تک تو واقعات ملتے ہیں مگر اس کے بعد تاریخ میں ان کا ذکر صرف تب ہوا جب ان کی شہادت ہوئی۔
کئی نامور اصحاب حضرت سلمان فارسی کہ جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اگر علم ثریا ستارے پربھی ہو اہل فارس وہاں پہنچ جائیں۔
حضرت ابوذر کہ جنہیں زمین پر سب سے سچا انسان قرار دیا۔
حضرت مقداد جن کی جنت مشتاق ہے۔
حضرت ایوب انصاری جو نبی کریم کے مدینہ میں میزبان تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری جو نبی کریم سے لے کر ان کی پانچویں نسل تک حیات رہے۔
حضرت عمار یاسر جن کی شان میں آیات نازل ہوئیں۔
حضرت بلال حبشی جو موذنِ رسول تھے۔
تاریخ ان کے بارے میں مکمل خاموش نظر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے وفات نبی کریم کے بعد وہ اس دنیا سے غائب رہے اور بس شہادت یا وفات کے وقت دنیا میں کچھ دیر کے لئے آئے۔
آخر کہیں تو کچھ غلط ہوا ہے کہ ان شخصیات کا ذکر کرنا عیب سمجھا گیا
دوسری طرف جو افراد نبی کریم کی وفات سے سال دو سال قبل مسلمان ہوئے,ان کی سوانح عمری سے تاریخ بھری نظر آتی ہے۔
نبی کریم کی وفات کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ان کی آل اور بہت سے وفادار اصحاب کو تاریخ نے مکمل نظرانداز کر دیا۔
کہاں کچھ غلط ہوا کہ نبی کریم کی وفات کے بعد ان کی آل کے کسی بھی فرد کی طبعی وفات نہ ہوئی۔
تمام قتل ہوئے اور قاتل بھی وہ جو ان کے جدِ پاک کا کلمہ پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔
آج چودہ صدیاں بعد بھی ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ حسنؑ و حسینؑ جنت کے سردار ہیں۔
پھراٙیسا کیا ہوا کہ جنت کے طلب گاروں نے سرداروں کو اِنتہائی اذیت کے ساتھ قتل کر دیا۔
مورخ نے آخر ان تمام ہستیوں کو اِتنا غیر اہم کیسے سمجھا کہ تاریخِ اِسلام میں اُن کا حصہ ایک صحابی جتنا بھی نہیں رکھا۔
کربلا اچانک نہیں ہوئی۔
ایک طویل نفرت تھی جو دلوں میں پنپ رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا گیا,نفرت بڑھتی رہی اور ہر ہستی کے بعد دوسری ہستی پر پہلے سے زیادہ ظلم ہوتا نظر آیا۔
اِتنی نفرت کہ اُس مقدس گھرانے کی مطہرات پر ظلم کرنے سے بھی نہ چوکے۔
چھ ماہ کے بچے کا سر کاٹنا بھی ثواب سمجھا گیا حالانکہ بدترین دشمن کے چھ ماہ کے بچے سے بھی کوئی دشمنی کا بدلہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اُمت نے تو آل رسول پر ظلم کیا ہی تھا مگر مورخین نے اُن سے کہیں زیادہ ظلم کیا کہ جن کے فضائل تھے اُنہیں چھپایا جبکہ ان کے دشمنوں کے فضائل سے کتابیں سیاہ کر دیں ۔
تحریر ساجد خان